لاہور (ویب ڈیسک) عید کا دن آج کل چھٹی کے دن کی طرح گزرتا ہے بلکہ کبھی کبھی چھٹی کا دن زیادہ اچھا گزرتا ہے۔ اس بار ہمارا گھر بھرا بھرا تھا۔ راولپنڈی سے میری بہت پیاری بہن کلثوم اور حمیرا لاہور آگئے۔ ان کے ساتھ اسد بھائی بھی تھے۔ وہ حمیرا کے شوہر ہیں۔ نامور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ پیاری بیٹی منعم (مریم) اور فاطمہ جسے میں کبھی کبھی فاطمی کہتا ہوں اور مجھے اپنے اندر قائداعظم کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی ماریہ جسے میں ’’ماری‘‘ نہیں کہتا ماڑیے کہتا ہوں جبکہ ’’ماری‘‘ اور ’’مارا‘‘ ہمارے گھر میں بے تکلفی کا ایک خطاب ہے۔ پورا دن ہمیں اپنا گھر کچھ زیادہ ہی گھر لگنے لگ گیا تھا۔عید سے اگلے دن تحریک انصاف کی لیڈر اور بہت اچھی بہت خوبصورت خاتون تحریک انصاف کی ایک خاموش مگر سپریم لیڈر ثروت روبینہ کا فون آیا کہ تم عید منانے ہمارے گھر پہنچو۔ عید تو ہوتی ہی دوسرے دن کی ہے۔ میں بغیر کسی ارادے کے اٹھا اور ان کے گھر چل دیا۔ مجھے اور میرے دوست ڈرائیو رعابد کو پتہ ہی نہ چلا اور ہم دونوں خاصی دور ثروت روبینہ کے گھر بہت جلدی پہنچ گئے۔ وہاں بیٹی رما بھی تھی جس کا مزاج خوبصورت بے تکلفی اور دوستداری کے امتزاج سے بنا ہے۔ گپ شپ اور ہنسی مذاق رہا۔ بڑا مزا آیا۔ بیٹی کا نام رما ہے اور بیٹے کا نام آدم ہے۔ وہ بہت اچھے کپڑے پہن کر مجھے ملنے آیا۔ میں نے کہا تم آدم ہو اور میں آدمی ہوں۔عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں ۔۔کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مۂ کامل نہ بن جائے۔۔ اب دونوں بہن بھائی بلکہ ثروت روبینہ کو بھی ساتھ ملا لیں تو تین بن جاتے اور چوتھا (میں بھی تو ہوں) اس طرح چار ہو جاتے ہیں۔ اس شعر کی تشریح کریں تو بات کہیں اور نکل جائے گی۔میںسمجھتا ہوں کہ اب شریف خاندان کی قیادت مریم نواز کے ہاتھ میں آجائے گی۔ یہ تو ٹھیک ہے مگر حمزہ شہبازشریف کیا کر رہا ہے۔ جسے مریم نواز پیارا بھائی کہہ کر پکارتی ہے اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ شہبازشریف کیوں اچانک لندن سے پاکستان آگئے ہیں۔ نوازشریف جیل میں ہیں۔ کہیں قیادت مریم نواز نہ سنبھال لے۔ جب کسی خاندان پر سیاسی زوال آتا ہے تو موروثی حاکمیت کی کمزوریاں اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہیں۔شہبازشریف کے استقبال میں ایک ہی معروف چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اگر عمران نذیر بھی نہ ہوتا تو مسلم لیگ (ن) کا کیا بنتا؟ مریم نواز کہیں نظر نہ آئی مگر شہبازشریف سیدھے جاتی امراء گئے۔ وہاں بھی ان کی ملاقات مریم سے نہیں ہوئی ہوگی؟ایک کشادہ دل مسلم لیگ نونی کہنے لگا کہ جس کی مرضی ہو وہ اس بستی کو ’’جاتی عمرا‘‘ بھی کہہ سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے خیال میں یہاں کا چکر لگانے سے آدمی سیاسی عمرہ کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔ اگر جاتی امراء کہے گا تو وہ ہر طرح سے ٹھیک ہے۔ خطرہ ہے کہیں یہ ’’آتی عمرہ‘‘ ہو جائے۔ میرا خیال ہے کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ کو بھی اتنا ہی موقعہ ملنا چاہئے کہ جتنا مسلم لیگ ن کو ملا ہے۔ مسلم لیگ ق کو بھی کوشش کرنا چاہیے۔ اسے مسلم لیگ کا ایک پورا سیاسی دھڑا بننا چاہئے ۔ڈاکٹر بابر اعوان عمران خان کا مکمل ساتھ دے رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ تحریک انصاف، پاکستان کے لیے ایک اچھی امید بن کر ابھری ہے تو وہ ایک اچھے زمانے کی نوید بھی بنے گی۔ عمران خان پاکستان کے لیے آخری امید ہے تو وہ پہلی امید بھی ہے۔ لوگوں کی امیدیں بھی پوری ہونگی۔ خوشی ہے کہ عظیم دانشور اور لیڈر ڈاکٹر بابر اعوان عمران خان کے ساتھ ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ہیں۔ عمران خان بھی ڈاکٹر صاحب پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سی توقعات زندہ رہیں گی۔اخبارات کے سارے سنڈے میگزین ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ آج ایک سنڈے میگزین میں سینئر بہادر اور بہت معتبر صحافی حامد میر کا مفصل اور جامع انٹرویو شائع ہوا ہے۔ وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مجھے ان کے بہادر والد صحافی وارث میر یاد آتے ہیں۔ وہ میرے دوست تھے ان کے ساتھ بہت ساتھ رہا۔ نمائندہ جنگ نے اچھا انداز اختیار کیا ہے مگر اسے اپنی تحریر سے سرخی نکالنا نہیں آئی وہ اگر حامد میر کی کہی ہوئی باتوں سے سرخیاں نکال لیتا تو یہ اس کی ایک نمائندہ پیشکش ہوتی۔ڈاکٹر بابر اعوان نے کہاکہ شہباز شریف کے استقبال کے لیے ڈیڑھ درجن کا سمندر لوگوں کا امڈ آیا۔ ایسا مذاق چلتا رہنا چاہئے مجھے یقین ہے کہ بذلہ سنج شہباز شریف مائنڈ نہیںکریں گے۔ البتہ رانا ثناء اللہ خفا ہو جائیں گے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ موقعہ پاکستان واپس چلے آنے کا کیا ہے۔ اس کا جواب بھی رانا صاحب ہی دیں گے۔اب مجھے یقین آ گیا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا ہے۔