برادرم اعجاز بٹ نے واہ کینٹ سے بتایا ہے کہ تحریک انصاف کے صدیق خان مرحوم ایم پی اے کا بیٹا ہار گیا ہے۔ ن لیگ والے جیت گئے ہیں۔ چودھری نثار نے علاقے کا وزٹ کیا۔ اپنا ووٹ بھی ڈالا۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ معروف اور موثر سیاسی لوگ انتخابی پولنگ بوتھ پر ہی نہیں جاتے۔ ووٹ ڈالنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چودھری نثار اپنے دل کے آدمی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر بھی سیاست کا لطف لیتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے کی اپنی خوشی ہوتی ہے۔ چودھری صاحب نے ماحول کا جائزہ لیا۔
تحریک انصاف کی جیتی ہوئی سیٹ پر ن لیگ کا جیتنا معمولی بات نہیں ہے۔ اس سیٹ کے لئے چودھری نثار ایک خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ صدیق خان سرور خان کے بھائی تھے۔ یہ سرور خان کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
چودھری سرور بھی دوست ہیں مگر وہ تحریک انصاف میں اپنی پوزیشن نہیں بنا سکے۔ ایک تصویر میں وہ شاہ محمود قریشی کے پیچھے کھڑے ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان قریشی صاحب کے دائیں بائیں موجود تھے۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں اپنے آپ کو نمبر دو سمجھتے ہیں۔ دو نمبر اور نمبر دو میں خاص فرق نہیں ہوتا قریشی صاحب نمبر ون بننے کے چکر میں ہیں۔ اس سے چکری والے چودھری نثار یاد آ جاتے ہیں۔ اس کے بعد چودھری سرور کا چکرانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
جہانگیر ترین تو خود بخود تحریک انصاف کے نمبر دو ہیں۔ تو پھر علیم خان کیا ہیں۔ عمران خان کے صحافیوں کے لئے دئیے گئے عشائیے میں دونوں موجود تھے۔ میں منو بھائی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ذوالفقار راحت بھی ہمارے ساتھ تھے۔ وہ اٹھ کر عمران خان کے پاس چلے گئے۔
جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ عمران خان کے عشائیے میں ملاقات ہوئی۔ علیم خان سے پرانی دوستی ہے۔ میں نے پہلے الیکشن میں ایاز صادق کیلئے لکھا تھا مگر اس بار علیم خان ان کے مقابلے میں تھے۔ علیم خان سے دوستی کی وجہ سے میں غیر جانبدار رہا مگر ایاز صادق نے اس بات کو محسوس کیا۔ میں غیر مشروط حمایت کا قائل نہیں۔ میں علیم خان کے مقابلے میں ایاز صادق کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ ویسے میرا خیال ایاز صادق کے لئے اچھا ہے مگر اب ان کے ردعمل سے مجھے تکلیف ہوئی ہے۔ ردعمل ردی عمل بن جائے تو وہ غیر موثر ہو جاتا ہے۔
لیڈر اور دانشور ڈاکٹر بابر اعوان نے بتایا ہے کہ 2013ءسے اب تک پاکستان سے اربوں روپے مختلف طریقوں سے بھارت بھجوائے گئے ہیں۔ 2013ءسے پہلے ایک پیسہ بھی نہیں بھجوایا گیا تھا۔ ظاہر ہے نواز شریف کے دور حکومت میں یہ ہو رہا ہے تو انہیں کسی نہ کسی صورت میں معلوم ہو گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کون اتنی بڑی بڑی رقم بھارت بھجوا رہے ہیں اور کس کو بھجوا رہے ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیوں بھجوا رہے ہیں؟ ڈاکٹر بابر اعوان کو لازماً معلوم ہو گا مگر وہ بتاتے کیوں نہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ لوگوں کو اندھیرے میں نہ رکھیں۔ وہ کئی باتوں اور رازوں کے حوالے سے بڑی روشنی ڈالتے ہیں۔
ہمارے ایک نئے افسانہ نگار طارق بلوچ صحرائی افسانے خوب لکھتے ہیں۔ آج کل افسانہ نہیں لکھا جا رہا ہے۔ جو اچھا افسانہ لکھتا ہے وہ مبارکباد کا مستحق ہے۔ طارق کا ایک جملہ کئی افسانے اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایک جملہ دیکھیں۔ ”ہونٹوں پہ اگر کربلا لکھ دیا جائے تو پھر کسی دریا کی کوئی شرط نہیں ماننا پڑتی“ یہ جملہ اس کی نئی کتاب ”خود گزیدہ“ میں ایک افسانے ”گونگے کا خواب“ میں شامل ہے۔
طارق بلوچ صحرائی اچھے دل والے اخلاق احمد قریشی کے ساتھ میرے پاس آئے۔ قریشی صاحب نے دانشور اور آرٹسٹ بیٹی شکیلہ جبیں کی شاعری کی کتاب ”بنی اپنی گرو آپ“ عطا کی۔ اپنی نئی کتاب ”رب کھیڈاں کھیڈدا“ کا مسودہ مجھے دیا یہ انوکھی پنجابی شاعری ہے۔ صوفیانہ رنگ و نور کے نئے راز و نیاز سے سجی ہوئی یہ شاعری بہت گہری اور بلند مرتبہ ہے۔ شکیلہ ایک تازہ منظرنامے کے ساتھ خوابوں کے آنگن میں ظاہر ہوئی ہیں۔ ان کے لفظوں میں نئے موسموں کا ذائقہ ہے اور پرانے زمانوں کی خوشبو بھی ہے۔ جدید و قدیم کی عجیب رنگا رنگی ان کے خیالوں میں سما گئی ہے۔ نسوانی لہجے میں اظہار کا ایسا اختیار انہیں حاصل ہے کہ مردانگی کا سلیقہ اسلوب حیات بن گیا ہے۔ اسلوب حیات اور اسلوب اظہار میں فرق مٹ گیا ہے….
سوہنیا وے سُن مینوں سوہنی کر دے
ہونی ہُندی ویکھی، انہونی کر دے
آئی ساریاں تو پہلے میں جھولی پھڑ کے
سودا ہٹی وچوں دے میری بوہنی کر دے