بہادر اور باغی ایس ایس پی رائو انوار کو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے معطل کیا ہے دونوں ’’صدر‘‘ زرداری کے آدمی ہیں درمیان میں بات کیا ہے؟ رائو انوار پہلے بھی بڑی معرکہ آرائیاں کر چکے ہیں انہوں نے اعلانیہ اور برملا یہ بات کی کہ میری معطلی غیر قانونی ہے۔ جلد بازی میں کی گئی ہے۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنی معطلی کو چیلنج بھی کر دیا ہے۔ وہ سرکاری پولیس افسر ہیں اور یہ محکمہ ڈسپلزی محکمہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کے براہ راست ماتحت ہیں مگر لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ اس کے ماتحت ہیں۔
سنا ہے کہ رائو صاحب ایم کیو ایم کے جانی دشمن ہیں۔ وہ جس طرح سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحق کو گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے تھے۔ فاروق ستار جس طرح ساتھ ساتھ گھسٹتے ہوئے چلے آ رہے تھے خواجہ صاحب کی اہلیہ رائو صاحب کے روبرو ہو رہی تھی دونوں کیلئے رائو صاحب کو پرواہ نہ تھی۔
رائو صاحب ایم کیو ایم کیلئے اچھے خیالات نہیں رکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کیلئے یہ نہیں سمجھتی کہ یہ پاکستان کا شہر ہے؟ ’’را‘‘ سے ان کے تعلقات ہیں رائو صاحب کو وارنٹ گرفتاری دکھانے کا بھی مطالبہ کیا گیا مگر کوئی پرواہ نہیں کی گئی۔ رائو صاحب دلیر پولیس افسر ہیں۔ اپنی معطلی کے بعد بھی انہوں نے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو نظر انداز کیا ہے۔ لگتا ہے کہ ایس ایس پی اور آئی جی سندھ وزیر اعلیٰ کے ماتحت نہیں ہیں۔ رائو صاحب نے مراد علی شاہ کے اختیارات کو بار بار چیلنج کیا ہے۔ جس کے چیف ایگزیکٹو نے کوئی ہدایت نہیں کی تو ایک ایس ایس پی کو یہ گرفتاری کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ گرفتار ہونے والا قائد حزب اختلاف اور ممبر صوبائی اسمبلی ہے۔ محترم مراد علی شاہ سوچیں کہ وہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ قائم علی شاہ بوڑھے تھے مگر وزیر اعلیٰ تو تھے۔ ’’صدر‘‘ زرداری اپنے صوبے کی طرف خصوصی توجہ کریں۔
خواجہ صاحب کو وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ گھر بھیجا گیا تو پھر خواجہ صاحب کو گرفتاری کی ذلت سے کیوں نہ بچایا جا سکا۔ رائو صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ کسی کو بھی گرفتار کرنے کیلئے کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک سب انسپکٹر بھی کسی کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی گرفتار نہیں کر سکتا ہے۔ دلیر پولیس افسر نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان پولیس سٹیٹ ہے۔ پھر بھی نجانے کیوں مجھے رائو صاحب پسند ہیں۔
مجھے تو لگتا ہے کہ ایس ایس پی رائو صاحب کی معطلی ایک ٹوپی ڈرامہ ہے۔ ٹوپی بھی پولیس والی یہ جو ہائی کورٹ میں اپنی معلطی چیلنج کی گئی ہے۔ اس سے پہلے ہی کوئی حل نکل آئے گا۔ خواجہ صاحب نے تو کہہ دیا ہے کہ میری کسی پولیس افسر سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔
بلاول نے اس سنگین واقعے کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے نہ ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف سے کوئی ردعمل آیا ہے۔ رائو صاحب کو استعفی دے کر الیکشن لڑنا چاہیے استعفی کی بات تو خود انہوں نے کی ہے۔ انتخاب لڑنے کی تجویز میری ہے۔ وہ کوئی مردوں والی پاکستانی سیاست اور سندھی سیاست میں کردار ادا کریں اور وہ کر گزریں گے رائو صاحب خاموش کیوں ہو گئے ہیں؟ ’’صدر‘‘ زرداری کو بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ کسی سیاستدان کو اس طرح پریس کانفرنس کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ رائو صاحب نے کمال کر دیا ہے۔ بہت بڑے آرٹسٹ اور دانشور ایم اے انگلش لٹریچر برادرم شجاعت کے بیٹے کی شادی تھی۔ یہاں روحانی دانشور اور دل کی دنیا کے حکمران مگر سادہ اور مہربان سرفراز شاہ بھی تھے۔ اس طرح یہ اجتماع بہت مزے کی محفل بن گئی۔ اس محفل کی تہذیبی کیفیت میں مزاح پیدا کرنے والے بڑے آرٹسٹ خالد عباس ڈار بھی تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کل ٹی وی چینلز پر مزاح کے نام پر لچر پروگرام افسوسناک ہیں ڈار صاحب کو میں کیا بتاتا کہ یہ کامیڈین اور انٹرٹیٹر تہذیبی زوال کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ڈاروں و چھڑی کونج بن گئے ہیں۔ اپنی اصل سے کٹے ہوئے لوگ اپنا قومی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں۔ ایک دوست نے کہا کہ یہ گم ہو چکے ہیں۔ میں نے کہا ابھی پوری طرح گم نہیں ہوئے مگر گم سم ہیں۔
منو بھائی اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ موجود تھے۔ وہ 85 برس کے ہیں مگر ایک معصوم شگفتگی ان کی آنکھوں میں ہے۔ افتخار بخاری کو ایک محبت کرنے والے دوست کی طرح سب نے ملتے جلتے دیکھا۔ انتظار زنجانی صاحب بھی تھے۔ وہ اہل بیت کے عاشق ہیں۔ ان کی باتوں میں عقیدت کا ایسا رنگ ہوتا ہے کہ ان کی موجودگی ایک رنگارنگی بن جاتی ہے۔ برادرم محترم انور قدوائی پرانے زمانے کی خوشبو کی طرح بکھرے ہوئے تھے انہوں نے سرفراز شاہ پر ایک بہت اعلیٰ کتاب مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں میرے بھی دو کالم شامل کئے گئے ہیں۔ یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ اس کیلئے میں قدوائی صاحب کا شکر گزار ہوں۔ میرے ایک کالم کا عنوان قبلہ سرفراز شاہ نے پسند کیا اور یاد کیا ’’ہم سب سرفراز ہونے والے ہیں‘‘۔
ملتان کے ایک سچے تخلیقی دانشور ادیب اور سٹار ڈاکٹر پروفیسر انوار احمد نے اپنے اردو رسالے کا نام مقامی پھل کے نام پر نام رکھا ہے۔ ’’پیلوں‘‘ ڈاکٹر صاحب ایک بین الاقوامی اور آفاقی مزاج کے آدمی ہیں۔ اب زبانوں کے معاملے میں سمجھتے ہیں کہ یہ سب اظہار کا ایک طریقہ ہے مگر اس میں خوبصورت اور ریاستی اظہار کا سلیقہ آنا چاہیے۔ اچھی بات جس بھی زبان میں ہو گی۔ دل کو لگے گی۔ اس علاقے کے بڑے موتی شاعر خواجہ فرید اب ایک بین الاقوامی شاعر ہیں۔ مجھے اپنے علاقے کے سب موتی شعرا پسند ہیں مگر خواجہ فرید سب سے زیادہ پسند ہیں۔ ایک ذاتی حوالہ بھی اور اجتماعی رنگ بھی ان لوگوں کو اردو کے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ خواجہ فرید کہتے ہیں…؎
بشکریہ نوائے وقت