counter easy hit

بخاری ایجوکیشن ٹرسٹ اور چھکا کیچ ہوا

بلاول بھٹو نے آخرکار عمران کا چھکا کیچ کر لیا۔ اب مقابلہ ان دونوں میں ہے۔ عمران 65 برس کی عمر میں نوجوان لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر نوجوان لیڈر آج کل صرف بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ اگر کوئی دوسرا ہے وہ تو مریم نواز شریف ہیں۔ حمزہ شہباز شریف ہیں مگر یہ دونوں آپس میں بھی مدمقابل ہیں۔ اب کسی حد تک یہ طے ہو چکا ہے کہ مریم نواز وفاق میں سیاست کریں گی۔ حمزہ شہباز پنجاب میں حکومت کریں گے۔ بہرحال بلاول ہی نوجوان لیڈرہیں۔
بلاول نے کہا کہ چھکا لگانے سے کوئی ہیرو تو بن سکتا ہے مگر لیڈر نہیں بن سکتا۔
2018ءتک عمران خان 67 برس کے ہو جاہیں گے۔ نواز شریف بھی اتنی عمر کے تو ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں نواز شریف کے بعد شہباز شریف کی باری ہے مگر لگتا ہے کہ مریم نواز شریف ہی نواز شریف کی جانشینی سنبھالیں گی اور حمزہ شہباز، شہباز شریف کے ولی عہد ہوں گے۔
عجب بات ہے کہ بلاول ممبر قومی اسمبلی نہیں مگر وہ لابی میں موجود تھے۔ عمران خان ممبر قومی اسمبلی ہیں مگر اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔ یہ کہنا کہ عمران کو سیاست نہیں آتی مناسب نہیں ۔ عمران نے جس چیز کی ذمہ داری اٹھائی ہے اسے انجام تک پہنچایا ہے۔ اب سیاست بھی آدھے راستے میں نہیں چھوڑیں گے۔ ضمنی انتخابات میں مسلسل ہارنے کے باوجود وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ روایتی سیاست اور انتخابی سیاست میں جو کمال نواز شریف کو حاصل ہے وہ ابھی عمران خان کو حاصل نہیں مگر عمران خان نے ”عمرانی سیاست“ کو چھوڑ کر اب روایتی سیاست میں قدم رکھ دیا ہے۔ اس میں کامیابی کا زیادہ امکان نہیں ۔ نومبر 2011ء والے عمران کہیں نہیں۔ 2018ءمیں عمران کو سخت مقابلے کا سامنا ہو گا بلکہ آمنا سامنا ہو گا۔
اب تو جو سیاسی لشکر عمران کے پاس ہے وہ نواز شریف کی فوج سے مختلف نہیں ہے۔ جہانگیر ترین امیر کبیر آدمی ہیں اور ن لیگ کے وزیر رہے ہیں۔ علیم خان بھی امیر ہیں۔ ان کے پاس پیسہ بہت ہے اور وہ ق لیگ میں وزیر تھے۔ پرویز خٹک بظاہر امیر نہیں مگر کچھ کچھ ”امیر جماعت“ بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے وزیر رہے ہیں۔ ساری جماعتوں کے معروف اور ”مصروف“ لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں۔ شفقت محمود تو ساری جماعتوں کا مزا چکھ کے آئے ہیں۔ اچھا تھا کہ وہ بیوروکریسی میں رہتے۔ زیادہ سے زیادہ بیوروکریسی کا حصہ بن جاتے۔ اب تحریک انصاف کو بیوروکریسی بننے سے بچائیں ۔ وہ اسے بیوروکریسی بننے سے نہیں بچا سکیں گے۔ یہاں سے کہاں جائیں گے؟ اعجاز چوہدری بہت ملنسار ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی والا اسلوب ہے جو عمران خان کو بہت محبوب ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب تحریک انصاف میں بڑی بڑی بے انصافیوں نے زور پکڑا ہوا ہے۔ ثروت روبینہ جیسی اچھے دل والی خواتین بھی ہیں۔ انہوں نے کچھ تجاویز لکھ کے عمران خان کو پیش کی ہیں۔ اب دیکھیں عمران ان پر کتنا غور کرتے ہیں۔ مجھے ان تجاویز کا پتہ نہیں ہے۔ میں نے کسی سے سنا ہے مگر مجھے ثروت روبینہ کے بہت پازیٹو ہونے کا یقین ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں تو عمران کے لئے بھی ہمارا حسن ظن قائم ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کچھ لوگ حسن زن کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے برادرم منور انجم کے بقول بلاول کی باتوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے بات ڈسکس ہوتی ہے۔ بلاول نے کہا کہ سیاست اور کرکٹ میں بڑا فرق ہے۔ ہر وقت ”ہٹ دی بال“ سے کام نہیں چلتے۔ عمران کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں نہ آنے کو بلاول نے بھی بہت محسوس کیا ہے۔ کسی موقع پر عمران خان بلاول بھٹو کے لئے بڑے اچھے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ عمران اور کچھ ساتھی اپوزیشن میں بھی پوزیشن بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ الف کو ہٹا کے یہ کام نہیں ہو گا۔ یقین نہ آئے تو شیخ رشید سے پوچھ لیں۔ عظیم قومی شاعر بلھے شاہ کا یہ مصرعہ قابل توجہ ہے
تینوں اکو الف درکار
اسمبلی سے باہر بلاول کی باتیں جتنا مزا دیتی ہیں اسمبلی کے اندر خورشید شاہ کی باتیں اتنا ہی بیزار کرتی ہیں۔ قائم علی شاہ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹایا تھا تو اسی خوشی میں خورشید شاہ کو بھی حزب اختلاف کی قیادت سے ہٹا دیتے۔ وہ اسمبلی میں ساری اپوزیشن کی پوزیشن خراب کرتے ہیں۔ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تو عمران خان ہے۔
نارنگ منڈی میں ”بخاری ایجوکیشن ٹرسٹ“ میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ یہاں دینی درس و تدریس کا اہتمام بھی ہے اور ماڈرن علوم کے لئے بھی طالب علموں کو ساری سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ جدید و قدیم علوم کے حسن امتزاج سے بچوں کا مزاج بنایا جاتا ہے۔ یہاں طالب علموں سے کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔ ہر چیز مفت مہیا ہوتی ہے۔ کتابیں اور لباس بھی بچوں کو عطیہ کیا جاتا ہے۔
اتوار کا دن تھا مگر بہت بڑی تعداد میں طالب علم موجود تھے۔ یہاں طالبات کے لئے بھی مناسب انتظام ہے۔ وہ بھی دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم سے بھی بہرہ ور ہوتی ہیں۔
مدرسے کی عمارت بالکل الگ ہے مگر ساتھ ہی بخاری فیملی کے بزرگان کی دو قبریں بھی ہیں۔ ان صوفی حضرات نے مدرسے کی بنیاد رکھی تھی اور بستی سے لوگوں اور دور دراز سے آنے والوں کے لئے روحانی برکات کی خیرات کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یہاں بخاری خاندان کے کئی افراد موجود ہیں۔ سید طاہر رضا بخاری مرکزی شخصیت ہیں وہ محکمہ اوقاف پنجاب کے ڈائریکٹر بھی ہیں پورے صوبے کی عمارات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے پاس ہے۔ پیر محلہ بخاری میں پیر سید محمد ابراہیم شاہ بخاری اور پیر سید محمد فاضل شاہ بخاری کی قبریں مرجع خاص و عام ہیں۔
محرم شروع ہو گیا ہے۔ ذکر حسینؑ کی پکار اور للکار ہر طرف بکھرتی اور نکھرتی جا رہی ہے۔ جوش ملیح آبادی کا معروف اور مخصوص شعر ہمارے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قو م پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
اس موقع پرمجھے ایک جدید شاعر ہ دلگداز کے کئی رازو نیاز جس کے لفظوں میں تڑپتے ہیں صوفیہ بیدار کے اشعار یاد آئے ہیں اور یوں لگا ہے کہ انسان بیدار ہوگیا ہے۔
موج فرات چاہئے آنکھوں کے چین کو
اک عمر اور چاہئے ذکر حسینؑ کو
خیرات خاک پا ہو محبت میں صوفیہ
سرمہ وفا کا چاہئے عاشق کے نین کو
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ موج فرات اور موج فراق میں کیا فرق ہے فرات تو ہر دل میں بہہ رہا ہے
دل دریا سمندروں ڈونگھے، کون دلاں دیاں جانے ہُو!

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ، بشکریہ نوائے وقت

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website