کچھ لوگ خوابوں اور سرابوں کے تعاقب میں ہانپ کر رہ جاتے ہیں اور کچھ اپنے خوابوں کی تعبیر سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب پر قدرت مہربان ہے۔
آج کل یہ فیشن بن گیا ہے کہ لوگوں میں مایوسی پھیلائی جائے۔ لٹ گئے۔ مارے گئے، چور لے گئے۔ ڈاکو لے گئے،غدر مچ گیا، کرپشن کی انتہا ہو گئی، منی لانڈرنگ کے سوا کوئی کام نہیں کیا گیا۔ حکمران یہی شور مچا رہے ہیں ،ان کی دیکھا دیکھی میڈیا بھی یہی شور مچا رہا ہے مگر میں نے بھی دل میں ٹھا ن لی ہے کہ قارئین کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کروں۔ وہ رخ جو روشن ہے، روشنیاں بکھیر رہا ہے ۔ جس سے آپ کو درندوں اور شیطانوں کی بجائے فرشتے اور انسان نظر آئیں گے۔ جن کے دلوں میں رحم ہے۔ ہمدردی ہے ، تڑپ ہے اور خیر وبرکت ہے۔ یقین جانیئے انہی باصفا لوگوں کی وجہ سے یہ ہستی قائم ہے۔ یہ ملک آگے بڑھ رہا ہے اور بڑھتا ہی چلا جائے گا۔میری پوری کوشش ہو گی کہ روشنی کے میناروں کو تلاش کروں ان باکمال ہستیوں کے کارنامے گنوائوں تاکہ آپ کے دلوں میں بھی امید کی ایک کرن روشن ہو کہ یہ ملک قائم رہنے کے لئے، ترقی کرنے کے لئے اورا وج ثریا کو چھونے کے لئے بنا ہے۔
مجھے اپنے نوائے و قت کے ساتھی حسنین جاوید یاد آتے ہیں جو لاہور سے ایک قدم بھی باہر رکھتے تھے تو جھٹ سے اپنا کالم لاہور سے لاہور تک لکھ ڈالتے تھے۔ یہ ان کے مشاہدات، ان کی ملاقاتوں کا نچوڑ ہوتا تھا۔ میں نے بھی گزرے ہفتے کے روز چند دوستوں کے ہمراہ لاہور سے باہر کی طرف سفر کیا اور قصور کی حدود میں اخوت یونیورسٹی میں چند گھنٹے گزارے۔ اس سے قبل ڈاکٹر امجد ثاقب ہماری محفل میں تشریف لائے تھے اور انہوںنے اصرار کیا تھا کہ جوکچھ وہ کہہ رہے ہیں اس پر یقین کرنے کے لئے ہم ان کی تعمیر کردہ ا خوت یونیورسٹی ضرور دیکھیں۔ اور ہم نے یہ یونیورسٹی دیکھی۔ٹھنڈی ٹھار اور فراخ نہر کے کنارے کئی ایکڑوں پر پھیلا ہوا کیمپس آنکھوں میں سمیٹنا مشکل ہو رہا تھا۔ گیٹ کے ساتھ ہی کئی منزلہ عمارت زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل میں چند ماہ لگ جائیں گے مگر اس کے سامنے ایک چھوٹا سا مینار جس پر دنیا کا گلوب اور مینار کے چاروں طرف قائد اعظم کے فرمان اتحاد،تنظیم اور ایما ن کی تشریح اور توضیح ۔ بالکل سامنے سات منزلہ عمارت ، بڑی ہی دل کش، انتہائی جاذب نظر۔ یہ اصل میں طلبہ کا ہوسٹل ہے جسے اس وقت دو کاموں کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ یہاں کلاسیں بھی چل رہی ہیں، اور طلبہ کے رہائشی کمرے بھی ہیں اور دفتری امور کا بلاک بھی۔ کھانے کی بڑی ٹیبل جس پر بیک وقت چار سو طالب علم اپنے ا ساتذہ کرام کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں اورا س ے قبل پہلو میں واقع ایک مسجد میں ظہر کی نماز با جماعت ادا کرتے ہیں۔ہم نے یہ مناظر دیکھے، کھانے کی محفل میں بھی شرکت کی۔ آلوگوشت کی بھینی بھینی خوشبو ۔ اور ہال میں ایسی خاموشی کہ کسی پلیٹ یا پیالی کی کھنک تک محسوس نہ ہو تی تھی۔
یہ بات تو ڈاکٹر امجد ثاقب ہمیں پہلے ہی بتا چکے تھے کہ ابھی کالج کی کلاسوں کاا جرا ہوا ہے اور ان میں ملک بھر کے ذہین مگر نادار طالب علموں کو داخلہ دیا گیا۔ نہ داخلہ فیس۔ نہ ماہوار فیس ۔ نہ ہوسٹل کے رہائشی اخراجات اور نہ ناشتے یا کھانے کے اخراجات، ایک پائی تک طلبہ سے وصول نہیں کی جاتی۔ اس عمارت کی تعمیر پرپچاس کروڑ لاگت آئی ہے اور ابھی اس کی تکمیل کے لئے کئی مراحل باقی ہیں جس کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب کویقین کامل ہے اسی معاشرے کے فراخ دل طبقات ا ن کی مدد کو آگے بڑھیں گے۔
انسان خواب دیکھتا ہے کچھ خواب سوتے میں اور کچھ جاگتے میں دیکھتا ہے۔ سوتے میں دیکھے گئے خواب کہیں آنکھوں کے پپوٹوں کے پیچھے تحلیل ہو جاتے ہیں مگر جاگتے میں دکھئے گئے خوابوںکی تعبیر ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو کسی کسی بخت آور کو مل جاتی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بھی خوش نصیب ہیں کہ انہوںنے دو خواب دیکھے اور دونوں پورے ہو گئے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو پتہ نہیں کیوں یہ خیال سوجھا کہ انہیں معاشرے کے پسماندہ طبقات کی مدد کرنی چاہئے۔ ان کے سامنے ایک ماڈل تھا۔ ریاست مدینہ کا جہاں مواخات کے نظام نے امیراور غریب کے فرق کو مٹا دیا۔ حتی کہ ایسا وقت بھی آیا کہ مدینے کی ریاست میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ا س ماڈل پر اخوت کی بنیاد رکھی۔ انہوںنے پہلا قرضہ صرف دس ہزار روپے کا اچھرہ کی ایک بیوہ کو سلائی مشین کے لئے دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی نیت نیک تھی۔ وہ خلوص کا پیکر تھے۔ اس لئے کسی نے ان کے ساتھ آج تک دھوکہ نہیں کیا۔ دس ہزار سے شروع ہونے والا اخوت کا منصوبہ آج ستاسی ارب پر محیط ہو چکا ہے۔ قرض لینے والے سے سود کی ایک پائی تک نہیں لی جاتی یہی قرض لینے والے اس قدر کمائی کر لیتے ہیں کہ خود ڈونر بن جاتے ہیں اور چراغ سے چراغ جل رہا ہے اور یہ کائنات بقعہ نور بن گئی ہے۔
یہی ڈاکٹر امجد ثاقب امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے گئے تو ور جینا یوینورسٹی بھی پہنچے ، وہاں ایک کتبے کو پڑھ کر ششدر رہ گئے۔ اس پر کنندہ تھا کہ میں امریکہ کا تیسرا صدر تھا، دو مرتبہ ا اس منصب کے لیے منتخب ہوا۔ میںنے اپناسیاسی سفرو رجینیا کے گورنر کی حیثیت سے شروع کیا۔ میں سینیٹر بنا۔ میں فرانس میں امریکہ کا سفیر رہا ۔ میںنے امریکہ کے لئے بل آف انڈی پینڈینس لکھا اور میں نے ہی بل آف رائٹس لکھا اور میں نے یہ یونیورسٹی بنائی۔ میری خواہش ہے کہ مجھے تاریخ میں صرف اور صرف اس یونیورسٹی کے بانی کے طور پر یاد رکھا جائے۔ اس کتبے کی تحریر ڈاکٹر امجد ثاقب کی سوچوں کا حصہ بن گئی۔ اخوت کی کا میابی کے بعد انہوںنے اخوت یونیورسٹی کا منصوبہ بنایا ۔یہ یونیورسٹی بھی انہوںنے معاشرے کے بد حال پسماندہ ۔ نادارا ور غریب طبقات کے لئے بنائی۔
ہماری ملا قات کوئی دو درجن طلبہ سے کرائی گئی جن کا تعلق پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تھا۔اخوت یونیورسٹی نہ بنتی تو یہ لڑکے اپنے ہی علاقوں کی گھاٹیوں اور کھیتوں کی فضائوں میں کھپ کھپا جاتے مگرآج وہ ایک شاندار عمارت اور ملک کے انتہائی ترقی یافتہ علاقے میں واقع یو نیورسٹی میں کسب فیض کر رہے ہیں۔ کوئی لڑکا اسکردوسے تھا ۔ کسی کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا، کوئی پنجگور اور کوئی ژوب سے آیا تھا۔ ایک لڑکا صحرائے تھر پار کر میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پلا بڑھا اور یہاں تک اپنے میرٹ کی وجہ سے پہنچا۔ کوئی راجن پور سے تھا ۔ کوئی جنوبی وزیرستان سے تو کوئی شمالی وزیرستان سے ۔یہ سب ملک کے پسماندہ ترین علاقے ہیں جہاں سورج کی روشنی کو بھی ہم اندھیروں میں تبدیل کر دیتے ہیں جہاں چاند کی چمک کے سامنے ہم گہرا تاریک غلا ف تان دیتے ہیں۔ جہاں ہم قوس قزح کے رنگوں پر بھی کالا برش پھیر دیتے ہیں۔ دنیا کی رعنائیوں کی یہاں کوئی جھلک نہیں پہنچتی مگر اب یہیں سے کچھ طالب علم اخوت یونیورسٹی سے ڈگریاں لے کے واپس اپنے علاقوں میں جائیں گے تو ا ٓسمانوں پر چھائی تاریکیوں کو نور میں بدل دیں گے۔ ان طالب علموں کی آنکھوں میں سنہرے مستقبل کی جھلک اورچمک دیکھنے کے لائق ہے۔ ان کے رخسار سرخ گلابوں میں رنگے ہوئے ہیں ۔ اور ان کی پیشانیوں سے نور کی وہ کرنیں پھوٹ رہی ہیں جو ان کی غربت اور پسماندگی کی تاریکیوں میں چکا چوند پیدا کر دیں گی۔
ہم نے یہاں پاکستانیت کا ایک حسین اور خوشبودار گل دستہ دیکھا۔ قائد کے سنہرے اصول اتحاد تنظیم اور ایمان کی عملی شکل دیکھی۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت سے پاکستانیت کا سفر کیسے مکمل کیا۔ یہ شاہنامہ ان کی زبانی سنوں گا اور آپ کو بھی سنائوں گا، اخوت یونیورسٹی ایک منی پاکستان ہے۔ یہاں ہر رنگ کے پھول کھلے ہیں۔ پاکستانیت کی بہار دیکھنے کے لائق ہے۔