تحریر: ڈاکٹر عارف کسانہ
یہ وقت بھی چشم فلک نے دیکھنا تھا کہ شو نزنس سے تعلق رکھنے والی خواتین قربانی کے جانوروں کے ساتھ کیٹ واک کریں گی۔ کہیں قربانی کے جانوروں کا مقابلہ حسن منعقد ہورہا ہے تو کہیں مہنگے جانوروں کی تشہیر سے نمود ونمائش عروج پر ہے۔ کیا قربانی کی یہی روح ہے؟ جس قربانی کو خلیل اللہ ؑ کی سنت قرا دیا جاتا ہے کیا اُن کا عمل ایسا تھا۔ کیا اسلام نے ایسی قربانی کے تعلیم دی ہے۔ فقط قربانی ہی کیا دیگرارکان اسلام کی بجاآوری میں بھی ہمارا طرز عمل اس سے مختلف نہیں۔ نمازجس میں نظم و ضبط اور طہارت کا پیغام ہوتا ہے لیکن مسجد سے نکلتے ہوئے نمازی آپس میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرہ میں صفائی کی صورت حال سے سب آگاہ ہیں۔ اگر نمازکا مقصود صرف قیام، رکوع اور سجود سے پورا ہوجاتا تو رب العزت کیوں سورہ الماعون میں ارشاد فرماتا کہ اُن نمازیوں کے ہلاکت ہے جو اُس کی روح سے غافل ہیں۔ کیا کبھی کسی نے اس طرف توجہ دلائی کہ صلوۃ کی روح کیاہے اور اس عبادت کا مقصد کیا ہوتا ہے۔
کیا وجہ ہے روزہ رکھنے کے باوجود ہم میں وہ تقوی ٰ نظر نہیں آتا جو صیام کا نتیجہ ہونا چاہیے ۔ قرآن جب بار بار کہتا ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد دوسروں کے لیے اپنا مال کھلا رکھو ہم سال میں ایک بار زکوۃ کی ادائیگی کے بعد اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ سُنت رسول پاکﷺ کی اہمیت پر تو بہت زور دیا جاتا ہے لیکن کیا کبھی کسی نے زکوۃ کے بابت سنت رسولؐ کا درس دیا۔ بات سوچنے کی ہے کیونکہ قرآن بار بار سوچنے او ر تفکر کی دعوت دیتا ہے۔ ہم عبادات کی اصل روح کے نظر انداز رکرتے ہوئے محض ایک طریقہ کار کے مطابق انہیں کرکے مطمئن ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا جب کہ حقیقت حکیم الامت یوں بیان کی ہے۔
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے۔۔۔۔۔ مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج ، دل پریشاں ، سجدہ بے ذوق۔۔۔۔۔کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے
ہر سال لاکھوں مسلمان حج کرتے ہیں لیکن ہماری اجتماعی اور ذاتی زندگی میں کوئی فرق کیوں نہیں پڑتا؟ پوری دنیا کے مسلمان کئی دن اکٹھے گذار کر بھی کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب نہیں کرپاتے جس ے ان کے معاشرہ میں کوئی تبدیلیاں آتیں۔وہاں سب ایک ہی لباس میں یک زباں ہوکر اللہ سے وعدہ کررہے ہوتے ہیں کہ ہم تری بارگاہ میں حاضر ہیں ، تیری ہی محکومی اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور تیرے حکم کے علاوہ کسی اور کا حکم نہیں مانتے لیکن وہاں سے آتے ہی اجتماعی اور انفرادی زندگی اس وعدے کی معمولی سی بھی جھلک نظر نہیں آتی۔ حج سے واپس آنے والوں سے لوگ بہت اشتیاق سے ملنے کے لیے جاتے ہیں اور بقول علامہ اقبال اُن سے اس عظیم عبادت کا مقصد اور پیغام جاننا چاہتے ہیں لیکن بقول اقبال۔
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں!
ہماری عبادتیں اور دوسرے اعمال اس لیے نتیجہ خیز نہیں کہ ہم اُن کی روح سے غافل ہیں۔ اُن اراکین کی ظاہری ادائیگی کے لیے تو بہت بحثیں اور باتیں ہوتی ہیں لیکن ان کا اصل مقصد کیا تھا اور وہ کس طرح پورا ہوگا اس پر نہ کوئی کچھ کہتا ہے اور نہ کوئی سوچتا ہے۔ ہم وہ تمام رسمی عبادات بجا لاتے ہیں لیکن اُن کی روح موجود نہیں جس کی طرف علامہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج۔۔۔۔۔ یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے
اب مختصر سا حالات حاضرہ کے حوالے سے کہ شام اور مشرق وسطیٰ میں مہاجرین کا مسئلہ امریکہ اور اقوام مغرب کا ہی پیدا کردہ ہے۔ انہوں نے عراق، شام، لیبیا، مصر اور خطہ کے دیگر مسلم ممالک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلہ کار بنایا جس کی وجہ وہاں کے لوگ پناہ کی تلاش میں یورپ کا رُخ کررہے ہیں۔سویڈن اور جرمنی نے انہیں خوش آمدید کہہ کر ایک قابل تحسین مثال قائم کی جسے دیگر یورپی ممالک خصوصاََ امریکہ کوبھی اپنانا چاہیے لیکن ناقدین کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ مسلم ممالک خصوصاََ مشرق وسطی ٰ کے ممالک کیوں بے حس ہیں۔ یہاں یہ بھی اہم سوال ہے کہ برما کی مظلوم مسلمانوں کی جلتی ہوئی بے گور و کفن لاشیں اقوام عالم کو نظر کیوں نہیں آتیں۔
دنیا کے منصفوں کو کشمیر میں بہنے والے خون کا شور کیوں سنائی نہیں دیتا۔ اقوام یورپ کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے برسلز میںیورپی پارلیمنٹ کے سامنے کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید اور یورپی پارلیمنٹ کے رکن سجاد کریم نے دیگر کشمیری تنظیموں اور حقوق انسانی کے رہنماؤں کے ساتھ یک زبان ہوکر ہفتہ کشمیر منایا۔ اس سے یورپی پالیسی سازوں کو مسئلہ کشمیر کی یاد دہانی ہوگی۔حال ہی میں ایک مریکی دانشور اور سیاسی رضاکار ایلی ویزا نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنی رپورٹ میں دنیا کو ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کی نزاکت سے آگاہ کیا ہے جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
انہوں نے عالمی حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ جرائم میں ملوث بھارتی فوجی افسروں کے بین الاقوامی سفر پر پابندی عائد کی جائے۔ اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ ایسے اہلکاروں کو قیام امن کی عالمی فورسز کا حصہ نہ بنایا جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے بھارتی مطالبے کو کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنے سے مشروط کیا جانا چاہیے۔پاکستان کی وزارت خارجہ اور بیرون ممالک سفارت خانوں نے اس اس رپورٹ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ معلوم نہیں کہ وہ کب خواب غفلت سے کب اٹھیں گے۔ویسے وزیر خارجہ کی عدم موجودگی سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت پاکستان خارجہ پالیسی کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر عارف کسانہ