کراچی……عدالت نے ڈاکٹر عاصم حسین کو نیب کے حوالے کردیاجبکہ ڈاکٹرعاصم کی والدہ کی جانب سےتفتیش میں مداخلت سےمتعلق درخواست ڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کردیا۔
ڈاکٹرعاصم کو سخت حفاظتی انتظامات میں انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کے سامنے پیش کیا گیا، تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف تفتیش میں ثبوت نہیں ملے، ہم انہیں رہا کررہے ہیں۔ڈاکٹر عاصم حسین نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہادہشت گردوں کے علاج سےمتعلق جعلی رپورٹس بنائی گئی ہیں،رسیدیں اور رپورٹس کمپیوٹر پر بنائی جاسکتی ہیں ،ہم پاکستان بنانے والے ہیں،بگاڑنے والے نہیں،جو رکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا وہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ رینجرز کے آپریشن کےخلاف نہیں ہوں ،مجھے اس کیس میں غلط طور پر پھنسایا جارہا ہے ،گینگسٹرز کےنام اسپتال کے ریکارڈ میں ڈال دئیے گئے، مریض کانمبراور ڈیٹا عدالت کو دے دیاگیا، ذاتی مسئلہ بنادیا ہے،اللہ ان کو ہدایت دے،مجھ پر ظلم نہ کریں، جس نے علاج کیا اس ڈاکٹر کو پکڑاجائے، میرے ساتھ ظلم ہورہاہے، رینجرز کی کارکردگی کی حمایت کرتاہوں عدالت میں جھوٹے ثبوت پیش کیے جارہے ہیں ۔سرکاری وکیل مشتاق جہانگیری نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی رپورٹ نہیں دکھائی گئی، میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے رپورٹ مسترد کرتاہوں، ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں۔سرکاری وکیل نے کہا کہ ڈاکٹرعاصم نےجےآئی ٹی میں اعتراف کیا کہ انہوں نےدہشتگردوں کاعلاج کرایا۔ انسداد دہشت گردی کی دفعہ نکالنے کو عدالت میں چیلنج کردیاگیا۔ مدعی مقدمہ کو بتائے بغیر تفتیشی افسر تبدیل کیاگیا۔ پہلے تفتیشی افسر نے ملزم کا 11 دن کاریمانڈ لیا۔ تفتیشی افسر نےاسپتال ایڈمنسٹریٹر کابیان لیا،10 گواہوں کے بیان رکارڈ کیے۔ نئےتفتیشی افسرنے5 دن کاریمانڈ لیااور4روز میں ملزم کو بے گناہ قرار دےدیا۔سرکاری وکیل نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں تفتیشی افسر کے پاس سیکشن 497 کا اختیار نہیں۔ سیکشن 497 کا اختیار صرف عدالتوں کو حاصل ہے۔ تفتیشی افسر نےانسداددہشتگردی کی دفعات ختم کرکےخود عدالت بننے کی کوشش کی۔ یہ اقدام انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 21ڈی کی خلاف ورزی ہے۔ڈاکٹر عاصم کے خلاف ایف آئی آر جے آئی ٹی کی روشنی میں تیار کی گئی۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف جے آئی ٹی میں 7سینئر افسر شامل تھے۔ جے آئی ٹی کے سربراہ ایس ایس پی ساؤتھ ڈاکٹر فاروق تھے۔ ایس ایس پی ساؤتھ نے ڈاکٹر عاصم کو بلیک قرار دیا۔ ڈی ایس پی سطح کاافسرکس طرح اعلیٰ پولیس افسران کی تفتیش کونظراندازکرسکتاہے۔ڈاکٹرعاصم کی والدہ کی جانب سےتفتیش میں مداخلت سےمتعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ نے15دسمبرکےلیےڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کردیا ۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہپولیس کی تفتیش میں رینجرز کو مداخلت سے روکا جائے۔