تحریر : سید عارف نوناری
ڈاکٹر پیر عبدالحمید گیلانی نوناری اگرچہ پیشہ کے لحاظ سے سرکاری ملازم تھے۔ لیکن خاندانی وراثت میں مذہبی رنگ غالب تھا اور اللہ کی طرف رغبت کی وجہ سے ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ ان کا شجرہ نسب شیخ سید عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔ دنیاوی زندگی کو نظر انداز کرکے انہوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنا من لگا رکھا تھا۔ ان کے چچا مولانامحمد یوسف نے ان کی زندگی میں تبدیلیاں لانے میں اہم کردار کیا۔ اور بچپن میں نماز’ روزہ کی نہ صرف تلقین کی بلکہ نماز’ روزہ باقاعدہ سے پابندی کرتے تھے۔ ڈاکٹر سید عبدالحمید گیلانی نوناری نے زندگی کے ابتدائی حالات یتیم ہونے کے سبب مشکلات میں گزارے اور مالی مشکلات کے علاوہ تعلیم کے حصول میں بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ تقسیم ہند کے وقت آپ کا سارا خاندان شہید ہوگیا تھا اور تقسیم ہند کے 45 سال بعد پتہ چلا تھا کہ ان کی ایک بہن جس ٹرین پر سکھوں نے حملہ کیا تھا معجزانہ طور پر بچ گئی تھیں جن کا نام حمیدہ تھا۔ کیونکہ بزرگ خود سید عبدالحمید گیلانی اور ان کا سارا خاندان بھی اسی ٹرین میں سوار تھا۔ جن پر سکھوں نے مسلمانوں کو بے دردانہ حملہ کرکے خون کی ہولی کھیلی تھی۔ سید عبدالحمید گیلانی کے والد سید محمد رمضان شاہ ہندوستان میں تحصیلدار کے عہدہ پر فائز تھے اور ولی کامل تھے۔ سید رمضان شاہ کا خاندان جیٹھوال میں بہت مشہور تھا۔ کیونکہ ان کے خاندان مذہبی روایات اور مذہبی ماحول خالصاً ہونے کے سبب خاندان میں ددھیال تمام افراد کے قد بہت لمبے تھے اور مذہبی لگائو کے سبب تمام خاندان کے افراد تقویٰ اور پرہیز گاری کے سبب علاقہ بھر میں نمایاں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
ان کے ننیال میں ان کے ماموں جیٹھوال کے علاقہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ جب پاکستان بناء تو تحریک پاکستان میں اور پاکستان کی تحریک میں ان کے بزرگوں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ توہ یہ سب ہجرت کرکے پاکستان آئے لیکن اکثر خاندان کے افراد تقسیم آزادی ہند کے وقت شہید ہوئے تھے۔ سید عبدالحمید گیلانی کے والد سید رمضان شاہ ک کے بے شمار مریدین تھے۔ جواب بھی ساہیوال’ فیصل آباد’ پاکپتن اور دیگر علاقوں میں موجود ہیں۔ سید رمضان شاہ کا مزار منیگڑی (ساہیوال) میں اب بھی ہے۔ سید عبدالحمید گیلانی نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ اور ساری زندگی لالچ نہیں کیا اور دولت کی ہوس نہیں کی۔ فقیری اور درویشی میں زندگی کے ایام گزارے۔ ان کے چچا سید محمد یوسف کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ 1974ء میں انہیں دفن کرکے مقامی قبرستان نونار میں آئے تو اسی شام کو نونار کے جنوبی علاقہ میں مستریوں کا محلہ ہے جہاں مولانا محمد یوسف اکثر لالٹین لیکر رات کے وقت جاتے تھے کہ اچانک رات کے 9 بجے انہوں نے قصہ نونارمیں مستریوں کے محلہ میں ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اچانک وہ شخص دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مردہ شخص جسے آج ہی دفن کیا ہاتھ میں لالٹین لیکر کھڑا ہے اور باقاعدہ مولانا محمد یوسف شاہ نے اس شخص سے ہاتھ ملایا اور خیرو خیریت دریافت کی اور پھر اچانک غائب ہوگئے۔ اسی طرح سید عبدالحمید گیلانی نوناری اتنے باعمل شخص اور تقویٰ و پرہیز گار تھے کہ شکر گڑھ کے علاقہ لیسرکلاں میں ملازمت کے دوران ان کے عمل سے متاثر ہوکر کئی ہندو خاندانوں نے اسلام قبول کیا جو آج بھی اسلام کے دائرہ میں غیر ہندوئوں سے مسلمان ہونے والے خاندان اس علاقہ میں مقیم ہیں۔
چار سال سید عبدالحمید گیلانی اس علاقہ میں رہے اور گردونواح کے دیہاتوں کے شخص شاہ صاحب کو حضور پاک اور اللہ کی پیاری باتیں سننے کیلئے لیجاتے تھے اور ساری ساری رات علاقہ کے لوگ عشق و محبت کی باتیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتے رہتے تھے۔ دیہاتوں سے بیمار بچے اور خواتین ان کے پاس آتے تو آپ اللہ اللہ کر دیتے تو وہ صحت یاب ہوجاتے تھے۔ قوالی کے بے حد شوقین تھے اور قوالی میں ان پر وجد طاری ہوجاتا تھا۔ صوفیاء کرام اور اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔ ڈاکٹر سید عبدالحمید گیلانی نوناری صبر’ تصوف’ تقویٰ اور توکل کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ ملنساری’ خوش اخلاقی اور رشد و ہدایت سے وہ لوگوں میں علم و تصوف کی شمعیں روشن کرتے رہتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوجاتے اور رکت طاری ہوجاتا۔ حضرت سلطان باہو کے مزار پر جاتے تو رو پڑتے اور حضرت داتا علی ہجویری کے مزار پربھی آنکھوں میں آنسوئوں کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالحمید گیلانی نوناری کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے مادیت کی بجائے روحانیت کی پرستش کی۔ اور نفسیاتی خواہشات کے خاتمہ کے لئے عمل طریقت سے کام لیا۔ کسی کو بھی پوری زندگی میں دکھ اور تکلیف نہیں دی۔ ان کی کتاب ”نبی اور تصوف” بھی بے حد مقبول ہوئی۔ جس میں طریقت’ شریعت’ بقاء جیسے تصوف کے اہم موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ اس کتاب کی تربیت و تدوین ان کے بیٹے سید عارف نوناری نے ان کی زندگی میں ہی کر دی تھی۔
سید عبدالحمید گیلانی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ درویش اور صوفی آدمی تھے۔ حضرت اویس قرنی کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو سید عبدالحمید گیلانی کی زندگی بھی ایک سربستہ راز تھا۔ دنیاوی زندگی میں ان کی شخصیت کے بیشتر درویشانہ عناصر چھپے رہے۔ ان کے وصال کے بعد ان کی زندگی کے ایسے حقائق سامنے آئے جس سے سلوک و تصوف کی کئی جہتیں نمایاں ہوئیں۔ شاہ صاحب عام زندگی میں تکلفات نہیں کرتے تھے اور مکمل عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے ان کی زندگی کے کئی پہلوئوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کے چچا مولانا یوسف شاہ بھی ولی کامل تھے۔ ایک دفعہ لوگوں نے التجا کی کہ مولانا صاحب بارش نہیں ہورہی بارش کے لئے دعا کریں تو آپ نے لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک میدان میں لے گئے۔ دھوپ بہت تیز تھی’ آپ نے دعا کی تو دعا کے دس منٹ کے بعد ہی بادلوں کی گھٹائیں چھا گئیں اور بارش شروع ہوگئی۔ اسی طرح سید عبدالحمید گیلانی نوناری کے بھی بے شمار واقعات ہیں جن سے ان کے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ولی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ سید عبدالحمید گیلانی نوناری نے چار بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر سید امین گیلانی’ سید عار نوناری ڈاکٹر سید عبدالمجید گیلانی اور پروفیسر سید عبدالوحید شامل ہیںآپ کا عرس یکم اپریل کو منایا جاتا اور مزار شریف نونار ضلع نارووال میں ہے۔
تحریر : سید عارف نوناری