کلکتہ، : اردو ادب کے نشر و اشاعت کیلئے قائم ملی و ادبی ادارہ صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام استاد شاعر قیصر شمیم کی صدارت اور افسانہ نگار و کالم نویس فہیم اختر (لندن) کی سرپرستی میں حال ہی میں مغربی بنگال اردو اکادمی کے مولانا ابوالکلام آزاد آڈیٹوریم میں ترکی ادیب، شاعر، نقاداور استنبول یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو کو روز نامہ اخبار مشرق کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور پارلیمانی رکن محمد ندیم الحق کے ہاتھوں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا۔ اس موقع پر استنبول یونیورسٹی کے ایک اور اردوپروفیسر ڈاکٹر ذکائی کردس اور تہران یونیورسٹی ایران سے تشریف فرما زینب سعیدی بھی موجود تھیں۔ڈاکٹر خلیل طوقار،ڈاکٹر جلال سوئیدان، ڈاکٹر خاقان قیوم ُجو، ڈاکٹر سلمیٰ بینلی، ڈاکٹر نورئیے بلک، ڈاکٹر گلیسرین ہالی جی، ڈاکٹر شوکت بولو، ایرکن ترکمان، درمش بلغورچند ایسے نام ہیں کہ جو ترکی میں اُردو زبان وادب اور تدریس وتحقیق میں مصروف ہیں۔
ترکی میں اِس وقت تین یونیورسٹیوں میں اُردو کے شعبے قائم ہیں۔ انقرہ یونیورسٹی، سلجوق یونیورسٹی قوینہ، استنبول یونیورسٹی۔ اِن تینوں یونیورسٹیوں میں اردو کے حوالے سے تعلیم و تدریس اور تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں ۱۹۸۵ء میں اردو کا شعبہ اور چیئر قائم ہوئی جس پر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا تقرر ہوا۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے جہاں اردو زبان وادب کے لیے اور بہت سے کام کیے وہاں خلیل طوقار جیسے اسکالر کو تدریس اُردو کے لیے تیار کرنا بھی اُن کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے ثمرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔خلیل طوقار (Halil Toker) ۳،اپریل ۱۹۶۷ء کو باقر کوئے (Bakirkoy) استنبول میںپیدا ہوئے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے ۱۹۸۹ء میں استنبول یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اُنھوں نے ۱۹۹۲ء میںاستنبول یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا۔ اُن کا ایم اے کا مقالہ اُردو اور فارسی دونوں زبانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایم اے میںاُنھوں نے مرزا غالب۔ فن اور شخصیت کے حوالے سے کام کیا۔۱۹۹۵ء میں اُنھوں نے استنبول یونیورسٹی ہی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اُن کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا: (Persian and Urdu Poetry in India and the Poets of the Bahadur Shah II Era) برصغیر میں فارسی اور اردو شاعری اور بہادر شاہ ظفر کے دور کے شعرا۔
۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۹ء تک وہ اسسٹنٹ کے طور پراستنبول یونیورسٹی کے شعبہ فارسی سے منسلک رہے۔ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۱ء تک بطور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردواستنبول یونیورسٹی میں کام کرتے رہے اور۲۰۰۱ء سے نومبر ۲۰۰۶ء تک ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ نومبر ۲۰۰۶ء میں وہ پروفیسر ہوگئے اور نومبر ۲۰۰۹ء سے سینئر پروفیسر کے طور پر شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی سے منسلک ہیں، شعبہ اُردو کے صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنے شعبے کے مقصد کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے شعبے کا مقصد ہے: ترکی میں اردو کی تعلیم کو پھیلا کر ترکی کے لوگ اور اردو بولنے والوں کے درمیان موجود تاریخی دوستی اور برادری کو اور بڑھا کر مضبوط کرنا اور علمی اور ادبی سطح پر تحقیق اور تدقیق کرنے والے رسرچ سکالرز کو تربیت دینا۔‘‘
۳۵ سے زیادہ کتابیں تحریر کر چکے ہیں،اردو، ترکی اور انگریزی میں اب تک سو سے زیادہ مقالات لکھ چکے ہیں۔زبان وادب کے سلسلے میں کئی ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ اُنھیں اپنے کام پر بہت سے ایوارڈ اور اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ مختلف موضوعات پر شایع ہونے والی اُن کی کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے:ڈاکٹر خلیل طوقارنے اردو تحقیق میں نمایاں کام کیا ہے۔اِس حوالے سے اردو، ترکی اور فارسی تینوں زبانوں پر اُن کی گہری نظر ہے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید لکھتے ہیں: ’’خلیل طوقار نے ’’عہد بہادر شاہ میں اردو اور فارسی شاعری‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے اور اردو گرامر پر ایک کتابچہ بھی لکھا ہے۔‘‘ڈاکٹرخلیل طوقار ترکی سے سہ ماہی اردو رسالہ ’’ارتباط‘‘ بھی نکالتے ہیں۔جنوری تا ستمبر ۲۰۱۱ء کا شمارہ اُنھوں نے ارتباط کا فیض احمد فیض نمبر نکالا اور نومبر ۲۰۱۲ء۔ اپریل ۲۰۱۳ء میں ارتباط کا احمد فراز نمبراہمیت کا حامل ہے۔ ’’جہان اسلام۔ ترکی کا ایک اردو اخبار‘‘ بھی اُن کی تحقیقی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کے مضامین پاکستانی جرائد اخبار اردو، مجلہ اقبال، اردو نامہ اور دیگر متعدد رسائل میں شایع ہوچکے ہیں۔ اردو کے حوالے سے مختلف ممالک میں متعدد کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرکے اپنے تحقیقی مقالات پیش کرچکے ہیں۔ڈاکٹر خلیل طوقار نے اُردو کے حوالے سے ۳۵سے زیادہ کتب اور ۱۰۰ سے زیادہ مقالات تحریر کیے۔علامہ اقبال کے خطوط،مولانا روم کی مثنوی کے منتخب حصوں کے علاوہ اردو شعرا کے کلام کا انتخاب بھی ترکی زبان میں منتقل کیا۔اُن کا تراجم کے حوالے سے بہت ساکام شایع ہوچکاہے۔
ڈاکٹر خلیل طوقار ایک نقاد، محقق اور ماہر تعلیم وتدریس ہونے کے ساتھ ساتھ خوب صورت جذبوں کے شاعر بھی ہیں۔ اُن کی شعری کتابیں ’’ایک قطرہ آنسو‘‘ اور ’آخری فریاد‘ میں اُن کی متنوع شاعری موجود ہے۔ اُن کی شاعری جذبے اور خیال کا ایک حسین امتزاج لیے ہوئے ہے۔اُن کے شعری موضوعات میں رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ وہ واردات قلبی اور اپنے لطیف خیالات کو لفظوں کے روپ میں بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔اُن کی نظم سوال کے یہ مصرعے دیکھیے:میں نے پوچھا شبنم سے
تیری عمر ہے کتنیکہا اس نے مسکرا کرکم سے کم تیرے جتنیصاحب اعزاز پروفیسر ڈاکٹرخلیل طوق آر نے اظہار خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان ان کی کسبی زبان نہیں بلکہ اپنی زبان ہے۔
اس زبان سے میری محبت ہے۔ میرا عشق ہے۔ ڈاکٹرخلیل جن کی مادری زبان ترکی ہے۔ لیکن وہ فارسی ، اردواور انگریزی زبان میں بھی عبور رکھتے ہیں نے کہا کہ ترکی اور اردو زبان کا ایک قدیمی رشتہ ہے جس پر وہ نازاں ہیں۔ خود لفظ ـ’’اردو‘‘ ایک ترکی ہے جس کے معنی ’لشکر‘ کے ہے۔ حضرت امیر خسرو جو اردو کے پہلے شاعر ہیں ، خود ترک تھے۔ دکن کے قطب علی شاہ کا تعلق بھی ترکی سے تھا۔ حضرت غالبؔ اور داغؔ بھی ترکی ہی کے تھے۔ اس طرح اردو ترکی کی طرح ہماری بھی زبان ہے۔ ہماری زبان سے ہماری قوم ہوتی ہے ۔جب زبان ہی نہیں رہے گی تو قوم کہاں رہے گی؟ ترکوں میں قوم پرستی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایک دفعہ تاتاری ترکیوں کو ترکی سے نکال کر روس میں بھیج دیا گیا تھا۔ ان کی تعداد ۲۰ لاکھ تھی۔ ان کی نصف تعداد راستے میں ہی فوت ہوگئی ،بقیہ زندہ رہی۔ آج کریملین میں ان کی ایک پارلیمنٹ اردو شاعری میں ان کے ۳ مجموعے بھی آچکے ہیں۔ یہ اردو کی تہذیب ہے جو دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور ڈاکٹر خلیل جیسے لوگ اس کے امین ہیں۔ ان کی شاعری مئے دو آتشہ ہے۔ ترکی یونیورسٹی میں ہر سال ۱۳۵؍۱۲۰ طلبا و طالبات اردو کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جس سے اردو کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
لٹریری سوسائٹی کے سرپرست فہیم اختر نے کہا کہ ۲۰۰۶ء میں بزرگ شاعر جب لندن آئے تھے تو میں نے ان سے اس طرزکی سوسائٹی کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ ۲۰۰۷ء میں انہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا۔ تب سے آج تک ہر سال ادبی پروگرام کئے جاتے ہیں اور ادباء و شعراء صحافیان کو اعزازات دیئے جانے کا سلسلہ قائم ہے۔ اس سے قبل مشہور صحافی احمد سعید ملیح آبادی ،مجتبیٰ حسین، ملک زادہ منظور، عزیز برنی جیسی شخصیتوں کو اعزازات دیئے گئے۔
۲۰۱۵ء میں ترکی میں تین دنوں تک ’’جشن اردو ‘‘ منایا گیا جس میں دنیاکے سو سے زیادہ مفکرین نے شرکت کی تھی۔ اس میں بھی مدعو تھا۔ وہیں میری ملاقات ڈاکٹر خلیل طوقار سے ہوئی ۔ رواں سال کا ایوارڈ انہی کے نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ تمام اردو والوں کا ہے ۔میں اس کا رضا کار ہوں۔ اس ادارے میں تمام لوگوں کی شمولیت ہونی چاہئے۔ میں کلکتہ کو محدود سطح سے نکال کر عالمی سطح پر مرکز نگاہ بنانا چاہتا ہوں۔
اردو کی آبیاری ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس کی ترقی و ترویج کیلئے کسی عظیم یا حکومت پر انحصار نہیں کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دینی ہوگی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈاکٹر خلیل طوقارایوارڈ دینے سے کلکتہ اور استنبول کے درمیان ایک پل قائم ہوگا۔ اپنے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں لندن میں ضرور رہتا ہوں لیکن میرا دل کلکتہ میں رہتا ہے۔ میں اردو زبان کی خدمت کیلئے بر وقت تیار ہوں۔ تاتاریوں نے اپنی زبان کو مرنے نہیں دیا۔ اس طرح زبان کی حفاظت ہماری ذمہ داری اور فرض ہے۔ اردو دنیا کی واحد مشترکہ زبان ہے جس میں سارے مذاہب اور اقوام کے الفاظ شامل ہیں۔ ہندو یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی زبان ہے۔ مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ہے۔ ترکی بھی اسے اپنا سمجھتا ہے تو ایرانی بھی اسے اپنا جانتا ہے۔ یہ محبت اور ہم آہنگی کی زبان ہے جو مفاہمت سے پیدا ہوئی ہے ۔ یہ زبان ہم سب کیلئے اللہ کی نعمت ہے۔ اس لئے زبان کے اندر اپنی حفاظت خود کرنے کا وصف موجود ہے۔ ورنہ اردو کے ساتھ جتنے ناروا سلوک کئے گئے اس کے باوجود اس کا پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہنا ایک بڑی بات ہے۔
ترکی میں اردو کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ ۱۹۱۵ء میں وہاں اعلیٰ تعلیم کا آغاز ہوا۔ آج تر کی کی تین یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ تا ہم انھوں نے اس بات کا افسوس کا اظہار کیا کہ آج اردو کو نقصان اردو والوں سے ہی پہنچ رہا ہے۔ اردو والے آج اپنے بچوں سے انگریزی میں باتیں کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں غیر اردو داں طلبہ جب اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بر صغیر کے لوگوں سے اردو میں باتیں کرتے ہیں تو وہ جواب انگریزی میں دیتے ہیں ،جس سے وہ جزبز کے شکار ہوجاتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ جب اردو والے خود اپنی زبان میں گفتگو نہیں کرتے ہیں تو ایسی زبان سیکھنے سے کیا فائدہ؟ ان حالات میں مجھے انہیں سمجھانا ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو والوں سے فریاد کی کہ خدا کیلئے اردو کے ساتھ نارواسلوک نہ کریں۔ زبان آپ کی محبت ہے۔ زبان کو روزگار بنانے کیلئے نہ سیکھیں بلکہ شوق سے سیکھیں ۔یہ زندہ رہے گی تو آپ زندہ رہیں گے۔
اس سے قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین نے ڈاکٹر خلیل طوقار کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترم جس روانی کے ساتھ ترکی میں بات کرسکتے ہیں اس روانی کے ساتھ فارسی اور اردو بھی بول سکتے ہیں۔ موصوف ۴۰ ؍ کتابوں کے مصنف ہیں جس میں سے ۲۵؍ کتابیں اردو میں ہیں۔ یہ بیک وقت ادیب، شاعر، محقق ،نقاد بھی ہیں۔ انہوں نے سفر نامے بھی لکھے ہیں۔ صدر جلسہ قیصر شمیم نے کہا کہ تاریخ کبھی کبھی خود کو دہراتی بھی ہے۔ اس میں نئی نئی باتیں بھی آتی ہیں۔ خلافت کی تحریک کے حوالے سے اردو کا ایک پرانا رشتہ ترکی سے پیوستہ ہے جس کے اظہار کیلئے سیکڑوں صفحات بھی کم ہیں۔دیگر مقررین میں ایم پی محمد ندیم الحق، صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد کالج ڈاکٹر دبیر احمد ، ڈاکٹر ذکائی کرداس ترکی، زینب سعیدی ،تریاق کے ایڈیٹر میر صاحب حسن ، ڈاکٹر شکیل احمد خاں، ڈاکٹر مشتاق انجم، وغیرہ شامل تھے۔نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر صباح اسمٰعیل نے بحسن خوبی انجام دی جبکہ اظہار تشکر ادارے کے نائب سکریٹری سید حسن نے کیا۔ جلسہ گاہ میں عمائدین شہر کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔پروگرام کے آخری حصہ میں شاندار مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔