سانحہ کارساز کی یاد میں ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بلاول نے کہا۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ باقی اللہ کارساز ہے۔ یہ تیر بلاول نے اپنی پھوپھی فریال تالپور اپنی بہنوں بختاور اور آصفہ اور شہلا رضا، شیریں رحمان اور مرد دوستوں کی موجودگی میں چلایا۔ میں نے کسی مرد کا نام نہیں لیا۔ مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ فریال تالپور بھی وہاں موجود تھیں۔ یہ سب ’’صدر‘‘ زرداری کی کامیابیاں ہیں جو سب گھر والوں کے حصے میں آ رہی ہیں۔ مجھے منور انجم نے بتایا کہ لندن سے ’’صدر‘‘ زرداری نگرانی کر رہے تھے۔ یہ وہ ’’جلاوطنی‘‘ ہے جو ہم وطنی کے سلیقے سے سجی ہوئی ہے۔ قمرالزمان کائرہ نے بہت دھواں دھار اور ’’جیالانہ‘‘ جولانی میں تقریر کی۔ اسے پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر بنایا جا رہا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے جس طرح بلاول کے لئے میدان بنایا ہے۔ یہی لیڈر کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو لیڈر شپ کے لئے تیار کر رہا ہے۔ جو بات شہباز شریف کے لئے حمزہ شہباز کو آگے لانے کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔ مریم نواز شریف بھی اسی راستے پر ہے مگر حمزہ شہباز شریف آگے ہے۔ بلاول اس سے بھی آگے ہے۔ اگر کوئی مقابلہ ہوا تو بلاول اور حمزہ میں ہو گا۔ ’’نوجوان لیڈر‘‘ عمران خان کہاں کھڑے ہوں گے؟
تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اس کے بعد فوراً بلاول نے کہا کہ تبدیلی لے کے آئوں گا۔
اب عمران خان سے تبدیلی چھینی جا چکی ہے۔ تبدیلی حمزہ لے کے آئے گا اور بلاول لے کے آئے گا۔ عمران خان کے مزاج کی وجہ سے اعلیٰ سطح کے ہر شعبے کے حلقے مایوس ہو چکے ہیں۔ لوگ بھی اور وہ خود بھی اپنے آپ سے مایوس ہو چکا ہے۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ اللہ کرے یہ صحیح نشانے پر جا کے لگے۔ عمران خان تو ابھی تیر کمان سنبھال ہی رہا تھا کہ کمان ٹوٹ گئی ہے۔ تیر بھی ٹوٹے گا۔ وہ اتنا ’’زبردست‘‘ ہے کہ یہ شعر یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
اِدھر آ ستمگر جگر آزمائیں
عمران خان ابھی تیراندازی اور تیر آزمائی کے ماحول سے نکل نہیں رہا۔ اس کے ساتھی اسے ٹوٹے ہوئے تیر اٹھا اٹھا کے دئیے جا رہے ہیں اور عمران خان چلائے چلا جا رہا ہے۔ کوئی تیر ابھی تک نشانے پر نہیں بیٹھا۔
مجھے یقین ہے کہ بلاول کوئی نہ کوئی تبدیلی لے کے آئے گا کہ اسے امام ضامن اس کی پھوپھی فریال تالپور نے باندھا ہے۔ یہ سب ہدایات لندن سے ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف سے آ رہی ہیں۔
میرا دل کہتا ہے کہ بلاول اپنی شہید ماں شہید نانا کی وراثتی رہنمائی اور اپنے کامیاب والد کی ہدایت پر چلتا رہا تو ضرور کامیاب ہو گا۔ ماں کی یاد اور والد کی اشیرباد اس کے ہمراہ ہوئی تو وہ وزیراعظم بنے گا۔ یہ کوئی ایسی ناممکن بات نہیں ہے۔ آصف زرداری اپنی سیاسی بصیرت اور جرات کے طفیل صدر پاکستان بن سکتا ہے تو بلاول وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتا۔ بینظیر آخر بڑے بھٹو صاحب کی بیٹی تھی۔ نواز شریف کے لئے جنرل ضیاء الحق نے پہلی بات کہی تھی اور کہا تھا کہ میری عمر بھی آپ کو لگ جائے۔ میرا خیال ہے کہ نواز شریف وہی عمر گزار رہا ہے۔ جنرل ضیاء تو شہید ہوا۔ جسے امریکہ قتل کرواتا ہے وہ شہید ہوتا ہے۔ بھٹو شہید ہے۔ بینظیر بھٹو شہید ہے تو جنرل ضیاء بھی شہید ہے وہ بھی امریکہ کا نشانہ بنا تھا۔
بلاول کی ریلی میں یہ شاعری بھی تسلسل کے ساتھ گائی جاتی رہی تھی
شہادتوں کے نئے آسمان باقی ہیں
قدم قدم پر ہمارے نشان باقی ہیں
ابھی امتحان باقی ہیں
خطاب کے دوران شہلا رضا بلاول کے بالکل ساتھ کھڑی تھی۔ وہ اسے کچھ بتا بھی رہی تھی۔ وہ بلاول کو پڑھاتی رہی ہے۔ وہاں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی تھے۔ یہ دونوں سابق وزیراعظم جو ثابت کرنے آئے تھے کہ ہمیں ’’صدر‘‘ زرداری نے بلاول کی سفارش پر وزیراعظم بنایا تھا اور اب وہ بلاول کو صدر زرداری کے حکم پر وزیراعظم بنوانے کے لئے کوشش کریں گے وہ اصل وزیراعظم ہو گا۔ جیسے زرداری صاحب اصل صدر تھے۔ گیلانی اور پرویز اشرف تو ڈمی وزیراعظم تھے۔ وزیراعظم تو نواز شریف ہیں اور اگر کبھی چودھری نثار بنے تو مگر وزیراعظم بننے کی قطار میں مریم نواز شریف کھڑی ہیں۔ کئی ادارے بھی اپنے اپنے ارادے لے کے کھڑے ہیں۔ یہی روایتی سیاست رہتی ہے تو چودھری نثار کو وزیراعظم کون بننے دے گا؟ اس راستے میں کہیں بلاول بھی کھڑا ہے۔ اس کے ساتھ شہلا رضا کھڑی ہے۔ شہلا کے ساتھ شیری رحمان کھڑی ہے۔ بلاول کو یاد رکھنا چاہئے کہ صدر زرداری نے پاکستانی سیاست اور سندھی سیاست کو ساتھ ساتھ رکھا تھا۔
بلاول نے اپنی تقریر میں پاکستان کھپے کے نعرے لگوائے تو خوشی ہوئی کہ اسے اپنے والد کی سیاست کا آغاز یاد ہے۔ انجام بھی پاکستان کھپے کے نعرے کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ بلاول کا مقابلہ نواز شریف سے نہیں ہو گا عمران سے ہو گا۔ مگر نواز شریف یا مریم نواز شریف کا مقابلہ بھی عمران خان سے ہو گا۔ عمران خان کا مقابلہ تو عمران خان سے ہو رہا ہے؟ پہلے یہاں ہار جیت کا فیصلہ ہو جائے تو پھر؟
ایک جملہ یہ بھی بلاول کا پسند آیا۔ ’’ٹیلی فون‘‘ سے حاکمانہ اشارے پر اڑنے والی پتنگ بھی کٹ گئی ہے۔ اس پر ادھار مانگی ہوئی ڈور سے سیاسی پتنگ اڑانے والے پریشان ہو گئے ہیں۔,
تحریر:ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، بشکریہ نوائے وقت