اسلام آباد (ویب ڈیسک) معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہاہے کہ میڈیا اس خبر کواچھالتاہے جس سے عزت پر حرف آتاہے ، تھر کول منصوبے کی انکوائری سے ہم پر کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکے گا ۔نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ”نیا پاکستان“ میں گفتگوکرتے ہوئے ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ تھر کول کا پاکستان کی معیشت پر بہت اچھا اثر پڑنا تھا جو اب نہیں پڑ سکتا،انہوں نے کہا کہ تھر کول پر کام کرنے والی ٹیم بہت اچھی تھی اور اس میں شامل لوگوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو نیو کلیئر پروگرام سے ریٹائرڈ ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اس خبر کواچھالتا ہے جس سے عزت خراب ہوتی ہے اس سے قبل بھی ایک مشین کی خریداری کے معاملے میں مجھے کورٹ میں طلب کیا گیا تھا لیکن جب اس خریدار ی کا تین مرتبہ آڈٹ کروانے کے بعدبھی کچھ نہ نکلا تو میڈیا کی جانب سے یہ تو نہیں کہا گیا کہ ڈاکٹر ثمر مبارک کا دامن اس معاملے میں بالکل صاف تھا ۔ انہوں نے کہا کہ تھر کول منصوبے کی انکوائری سے بھی ہم پرکچھ ثابت نہیں ہوسکے گا اور پھر میں امیدکرتاہوں کہ میڈیا حقائق عوام کے سامنے لائے گا۔ جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک کو اسٹنٹ بنانے کیلئے دیے گئے 37 ملین (3 کروڑ 70 لاکھ) روپے کے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے ڈاکٹر ثمر سے رقم کا حساب بھی مانگ لیا۔ سپریم کورٹ میں دل کے غیر معیاری اسٹنٹس سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں ڈاکٹر ثمر مبارک بھی پیش ہوئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹر ثمر مبارک سے پوچھا کہ آپ نے اسٹنٹ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی، 2004 میں اس کام کے لیے حکومت نے آپ کو 37 ملین روپے دیے، جو اسٹنٹ آپ نے بنایا وہ کہاں ہے؟اپنی کارکردگی سے تحریری طور پر آگاہ کریں اور تمام اخراجات کی تفصیل فراہم کریں، کیا 37 ملین سے بھی اسٹنٹ نہیں بنا۔ڈاکٹر ثمر مبارک نے جواب دیا کہ 37 ملین روپے کی لاگت سے منصوبہ شروع ہوا، سالانہ دس ہزار اسٹنٹس تیار کیے جانے تھے، بطور چیئرمین نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (نیسکام) میں نے 2004 میں جرمنی سے مشین امپورٹ کی، میں نے تمام ٹیکنالوجی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) کو منتقل کر دی۔ نسٹ حکام نے جواب دیا کہ 30 ملین کی تو صرف مشین ملی تھی۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈاکٹر ثمر کو دیے گئے 37 ملین روپے کا آڈٹ بھی نہیں ہوا۔ عدالت نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو دیے گئے 37 ملین کے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے ڈاکٹر ثمر سے ایک ہفتے میں تحریری جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مئی تک ہر صورت میں پاکستانی اسٹنٹ تیار ہوجانے چاہئیں، خود اپنے طور پر ان اسٹنٹ کو چیک کروائینگے، اسٹنٹس کی قیمتیں خود مقرر کرینگے، تمام امپورٹرز کو بلا کر تفصیلات لینگے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آڈٹ رپورٹ پیش کرنے کےلیے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ جس نے کام نہیں کرنا وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے۔