تحریر: محمد یاسین صدیق
ڈاکٹر طاہر القادری 19 فروری 1951 کو جھنگ میں پیدا ہوئے ۔یہ ان کی 64 ویں سالگرہ ہے ۔ان کے بارے میں چند دلچسپ ،غور طلب باتوں میں سے چند ایک ،مثلا ڈاکٹر طاہر القادری کس فرقے(مذہب،مسالک وغیرہ وغیرہ اسلام کی کسی بھی شاخ ) سے تعلق رکھتے ہیں اس بارے مختصر لیکن دلچسپ صوررت حال درج ذیل ہے ۔ان کے مخالفین ان کو بریلوی مسلک کا ایک عالم سمجھتے ہیں حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ فرقہ پرستی کے خلاف ہیں اور اہل سنت سے تعلق ہے اور خود کو حنفی کہتے ہیں ۔ دیو بندی ان کو بریلوی عالم کہتے ہیں دوسری طرف بریلوی علماء نے ان کو اہل سنت جماعت سے خارج قرار دیا ہوا ہے ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز کہا ہے۔
یزید کو لعنتی کہنے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے علماء نے ن کی مخالفت کی ۔ان پر بعض الزام جو ان کے مخالفین لگاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب عیسائیوں سے بھی حسن سلوک کا کہتے ہیں اور اہل تشیع سے بھی بعض علما ء نے اس پر ڈاکٹر پر تنقید کرنے کی کوشش کی ہے وہ شائد اسکو بھول جاتے ہیں کہ یہ تو (حسن اخلاق )سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ان پر اہل سنت جماعت کی طرف سے بھی فتوی ہے کہ ان کی اقتدا میں نماز جائز نہیں ہے وغیرہ ۔مزے کی بات ہے کہ بریلوی ،دیوبندی،اہل حدیث ،اور بعض شیعہ علماء نے بھی ان کی مخالفت کی ہے ۔اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے مخالفین ان کو اپنے مخالف مسلک سے جوڑتے رہتے ہیں ۔لیکن وہ خود کو حنفی اہل سنت کہتے ہیں۔
دیگر جن مسائل پر ڈاکٹر صاحب کی مخالفت کی جاتی ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں ،ڈاکٹر صاحب نے دو انگل داڑھی کو بھی سنت کہا ہے ،عورت کی آدھی کی بجائے مکمل دیت کے قائل ہیں ۔ لباس کے بارے وہ کہتے ہیں باحیا ہو نا چاہیے جو مرضی پہن لیں باحیا ہو ،بے شک پینٹ شرٹ ہو ۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اپنا مسلک چھوڑو مت کسی کا مسلک چھیڑو مت یہ ہی راستہ ہے اعتدال اور فرقہ پرستی کے خاتمے کا ۔وہ تصوف کی حمایت کرتے ہیں اور اسے کاروبار بنانے والوں کو گمراہ خیال کرتے ہیں ۔وہ دین اسلام میں تشدد کے قائل نہیں ،دہشت گردی کے مخالف ہیں۔
اس پر انہوں نے فتوی دیا ہے ،کتاب لکھی ۔ان کے مطابق اسلام عورت کو مرد کے مساوی حقوق دیتا ہے ۔آدھے نہیں ہیں ۔کچھ علما ء موسیقی کو جائز قرار دینے پر ان سے ناراض ہیں ۔وہ غیر مذاہب سے بھی حسن سلوک کے قائل ہیں مثلا عیسائیوں ،یہودیوں ،ہندووں وغیرہ سے ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں موجودہ عہد میں اسلام کی مذہبی ،ثقافتی،سماجی اور سائنسی بنیادوں پر تعبیر کی ضرورت ہے ۔ڈاکٹر صاحب کا ترجمہ قرآن “عرفان القرآن ” ان کا بہت بڑا اعزاز ہے انہوں نے ترجمہ موجودہ عہد کی بصیرت کے مطابق کیا ہے
بعض سورتوں کا ترجمہ سائنسی زبان میں اور بعض کا روحانی زبان میں یعنی اصلاحات استعمال کیں ہیں ۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک طویل ترین کتاب لکھی جو بارہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ایک کتاب میں امنہاج السوی میں احادیث کا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ گوشہ درود ،میلاد کانفرنس،شہر اعتکاف دنیا میں سب سے بڑے منہاج القران کے پلیٹ فارم سے منعقد کیے جاتے ہیں۔
ایک طرف ڈاکٹر صاحب نے خود بے شمار کتابیں لکھیں (کم و بیش 1000 ) اسی طرح ان کے ناقدین نے بھی ان کی مخالفت میں بے شمار کتب لکھیں ،ان کی مخالفت مذہبی طبقے کے ساتھ ساتھ غیر مذہبی لکھاریوں نے بھی بے شمار کالم لکھے جن میں سے بہت سے محمد نواز کھرل نے اپنی کتاب” متنازعہ ترین شخصیت” میں جمع کر دیئے ہیں۔
دوسری طرف ادارہ منہاج القرآن کی طرف سے ہر الزام کے رد کے علاوہ دلائل سے مفصل جواب دئیے گے ہیں ،اس طرح جناب نواز کھرل کی کتاب کانام تو درست رکھا۔لیکن انہوں نے کتاب میں یک طرفہ مواد ہی جمع کیا ہے ،اگر وہ دونوں اطراف کے دلائل دیتے تو بہتر ہوتا ۔جن دنوں دھرنا جاری تھا ان دنوں ایک لائیو ٹی شو میں پاکستان کی ایک سابقہ اعلی شخصیت نے ڈاکٹر صاحب پر سفارش کرنے کا الزام لگایا ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت لائیو کال کی اور الزام علیہ کے سامنے وضاحت کر دی کہ اصل سچ یہ تھا ۔جس کو رد نہ کیا جا سکا ۔ اسی طرح انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے ہر الزام کا جواب دیا ہے۔
منہاج القرآن کا کسی حد تک جماعت اسلامی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے ۔مذہبی ،تعلیمی ،سیاسی ،فلاحی ہر لحاظ سے اور مسلک کے لحاظ سے بھی جماعت اسلامی جو کہ دیو بندی ہے نہ بریلوی کی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت منھاج القرآن بھی دیوبندی ہے نہ ہی بریلوی ۔دونوں جماعتوں کا نیٹ ورک یونین کونسل کی سطح تک ہے ،دونوں جماعتیں مذہبی ہیں ۔دونوں جماعتوں کے کارکن مخلص ہیں ۔دونوں پر کرپشن کا الزام نہیں ہے۔
احیاء اسلام کے دونوں داعی ہیں ۔کاش دونوں مل کرتجدید اسلام اور سیاست کا گند صاف کرنے کے لیے مل کر قدم رکھیں ،اتحاد کر لیں ،اتحاد کا دعوی دونوں کرتی ہیں ،اللہ کی رسی مل کر پکڑنے کی دعوت دیتی ہیں ۔ لیکن دونوں چاہتیں ہیں کہ جو پاکستان میں تبدیلی آئے صرف ان کے نام سے آئے ،میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں اتحاد کیوں نہیں ہے ۔کیا یہ اپنے منشور سے مخلص ہیں ،اسلام اور وطن سے مخلص ہیں ۔یہ سچ مچ عوام کا درد رکھتے ہیں۔تو اسلام کے لیے ،وطن کے لیے ،عوام کے لیے ان کو اتحاد کر لینا چاہیے۔
تحریر: محمد یاسین صدیق