تحریر: صبا عیشل
آپی! چینل کیوں بدل دیا، اف اس گھر کی ڈیکوریشن کتنی مہنگی کرائی گئی ہے۔ آپ لگا رہنے دیتی ناں!! میں اپنی 12 سالہ کزن کے منہ سے حسرت بھرا جملہ سن کر کافی حیران ہوئی۔ کچھ عرصہ کے مشاھدے سے اندازہ ہوا کہ ایسی بے شمار حسرتیں ہر دوسرے شخص کے دل میں پنپ رہی ہیں۔
ایک دوست سے کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔باتوں باتوں میں عورتوں کا پسندیدہ موضوع شاپنگ نکل آیا تو اندازہ ہوا کہ موصوفہ اچھی خاصی سمجھدار ہونے کے باوجود ٹی وی ڈراموں میں دکھائی جانے والی شان و شوکت اورکرداروں کے قیمتی و ڈیزائنرز پہناووں سے خاصی متاثر ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے بچپن میں جب عینک والا جن اور سارے گاما پا ٰ طارق عزیز شو اور اس جیسے دیگر پروگرام پیش کئے جاتے تھے تو ہم بہت شوق سے دیکھتے تھے ان کرداروں میں معصومیت اور سادگی ہوتی تھی۔
اس وقت ایک ہی سرکاری ٹی وی چینل تھا ،جس سے سیکھنے کی کئی چیزیں ملتی تھیں۔ اگر آج کے لاتعداد چینلز کا موازنہ اس وقت سےکیا جائے تو ٹی وی ڈراموں اور شوز کی تو تعداد بے حساب ہے۔مگر بناوٹ اور تصنع نے لوگوں کے ذہن کو اآلودہ کرکے رکھ دیا ہے، رزق بزق لباس ٰ قیمتی زیورات ٰ اعلی فرنیچر ٰ بہترین فرنشڈ بنگلوز اور انکے باہر کھڑی چارچار گاڑیاں متوسط اور غریب طبقے کے افراد کی نگاہوں کو خیرہ کردیتی ہیں۔
کچھ سال پیچھے جاکر دیکھا جائے تو ایسا ہرگز نہیں تھا ڈراموں پر غیر ملکی چھاپ اور پڑوسی ملک کے رہن سہن کی یلغار نہ تھی ۔
پاکستانی اور اسلامی ثقافت نمایاں طور پر نظر آتی تھی۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جیسے جیسے چینلز بڑھتے جارہے ہیں ہمارا معیار گرتا چلا جارہا ہے۔ دوپٹہ سر سے اتر کرگلے میں آیا پھر گلے سے بھی اتار کر پھینک دیا گیا۔فیشن کے نام پر سلیولیس اور پھر جینز نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ پڑوسی ملک کا مشاھدہ کیا جائے تو بڑے شہر میں کافی دیر تک ڈھونڈنے پر بھی دور دور تک کوئی ایسا گھر ٰ حویلی اور محل نظر نہیں آیا جیسا انکے ڈراموں کی روایات ہیں۔
اب ہم نے بھی اپنے ڈراموں کا طرز زندگی بدل دیا ہے۔جس کا سب سے زیادہ برا اثر نوجوان طبقے اور بالخصوص صنف نازک پر پڑرہا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعدار ڈراموں کے مہنگے طرز زندگی سے شدید متاثر ہیں۔ اب ڈراموں میں گھر اور گھرداری جاننے والی ہیروئن ناپید ہو چکی ہیں۔ ماضی کے ڈراموں کی ہیروئن اگر ایک معصوم گھریلو ٰ سگھڑ اور پروقار پہناوے کا مرکب تھی۔تو اب کی ہیروئن بولڈ ٰ آفس گرل اور ماڈرن برانڈڈ مگر ثقافت اور اسلام سے ماورا لباس میں ملبوس ہوتی ہے۔ نوجوان لڑکیاں کچی عمر میں ہی ایسے ڈراموں سے متاثر ہر کر اپنی حیثیت سے بڑے خواب دیکھنے لگتی ہیں مگر جب حقیقت پھن پھیلا کر سامنے آتی ہیں تو انکے خوابوں ٰ آرزوو¿ں اور خوشنما امنگوں کا بت پاش پاش ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً ایک طویل عرصہ تک وہ خود سے گھر والوں سے اور اپنے طرز زندگی سے متنفر ہوجاتی ہیں۔ کچھ تو بروقت سنبھل بھی جاتی ہیں مگر اکثریت اپنے خوابوں کی عالیشان عمارت مقبرہ میں تبدیل نہ کرنے کی چاہ میں والدین سے بدتمیزی اور مقابلہ کی سطح پر اتر آتی ہیں اور اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کی خاطر انتہائی حد پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
ہمارا نوجوان ڈراموں کے اعلیٰ شاندار فرنشڈڈ اے سی دفاتر دیکھ کر کسی کم درجے کی نوکری پر راضی نہیںہوتے۔ ڈراموں کا بجٹ اور تعیشات سے بھری زندگی عام آدمی کی حسرتوں کو بڑھاتی چلی جارہی ہیں۔ آسائشات زدہ زندگی غریبوں کی محرومیوں کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے۔ اور ان محرومیوں کی حسرتیں دیکھنے والوں کو ڈپریشن جیسے موذی مرض میں مبتلا کردینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ ہر دوسرا شخص احساس کمتری کا شکار ہے۔ ملکی صورتحال سے پریشان عوام لاتعداد مسائل سے دوچار ہے۔
روزگار کا بحران ان میں سے ایک ہے۔ لوگ دن بدن ٹی وی ڈراموں کی شان و شوکت بڑھتی دیکھ کر متنفر ہوتے چلے جارہے ھیں۔ دن بھر کام کرکے تھکا ہارا گھر کو آنے کے بعد ہر ٹی وی چینل کا ماحول عام آدمی کی تھکن میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ ہم دوسروں کی تقلید کرکے اپنی روایات واقدار ٰ رسم و رواج ٰ دین اور ثقافت سے دور ہوتے چلے جارہیں ھیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی وی چینلز اپنی ذمہ داری کو سمجھیں لوگوں کو انکی حسرتوں اور محرومیوں کا احساس دلانے کے بجائے ان کے مسائل کو سامنے لایا جائے۔ آج کل کے ڈراموں کی کہانی کا نتیجہ کچھ بھی نکلتا ہو لیکن اصل زندگی میں اسکے نتائج عام طرز زندگی گذارنے والے ناظرین کو بھیانک مسائل سے دوچار کر رہے ہیں۔
تحریر: صبا عیشل