تحریر: محمد ریاض بخش
وہ ہر روز خواب دیکھتی ہے اس نے اپنی زندگی کودو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ایک حصہ دن کو دیا اور دوسرا رات کو۔دن کا جو حصہ ہے اُس میں سارا دن وہ کام کرتی جیسے کے بھیسوں کو چارہ ڈالنا ان کو نہلانا ان کے لیے چارہ کاٹنا گھر کا کام کرنا سب کے لیے کھانا بنانا وغیرہ۔۔۔رات کا حصہ اس کا بڑا اسپشل تھاکیوں کہ وہ خواب دیکھتی تھی۔دن کی ساری تھکان وہ خواب دیکھ کر دور کرتی۔جب رات کو وہ اپنی چار پائی پرلٹتی تو اُسے ایک الگ سکون ملتا اس لیے نہیں کے اُسے اب کوئی کام نہیں ہے یا وہ آرام سے سو سکے بلکے اس لیے کہ وہ جاگتی آنکھوں سے اپنے خواب دیکھ سکے۔
وہ ذیادہ طررات کو سو نہیں سکتی تھی کیوں کہ جیسے ہی وہ کرواٹ بدلتی اُس کو درد ہوتا ارو وہ جاگ جاتی اس لیے وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی مطلب آنکھیں بند کر لیتی اور اپنے خوابوں میں کھو جاتی۔وہ روز اپنے خوابوں میں کہتی اللہ کرے گا جب کل میں سو کر اُٹھو گئی تو میرے علاج کے لیے پیسے جمع ہو گئے ہونگے۔اللہ میرے لیے کوئی آسماں سے فرشتہ بھیج دے گا اور میرا علاج ہوجائے گا۔پچھلے سات سالوں سے وہ یہی خواب دیکھ رہی ہے مگر آج تک اُس کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا اور پتہ نہیں اُس کو کتنے سال یہی خواب دیکھنا پڑئے۔۔۔۔۔
نام ۔مریم عمر اب25 سال میاںچنوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا گائوں ہے وہاں کی رہنے والی باپ 75سال کا جو خود اپنی آنکھوں کی بینائی اپنی بیٹی کے غم میں کھو چکا ہے۔۔مریم آج سے دس سال پہلے بلکل ٹھیک تھی صحت مند شور مچانے والی اور اپنے خاندان میں سب سے تیز کام کرنے والی سارے خاندان والے اس سے جلتے تھے۔۔مریم کو بچپن سے جانواروں کا بہت شوق تھا اور اب بھی ہے خیر چھوڑے میں مریم کا بارے میں بتا رہا تھا۔مریم کے ٹوٹل 5چاچے ہے چھٹا مریم کا باپ۔۔دس سال پہلے مریم کے چاچوں میںزمین کے سلسلے لڑائی ہوئی تو تین ایک سائڈ پے ہوگے اور تین ایک سائڈ مریم کا ابو بھی لڑائی میں شامل تھا۔۔
کافی ایک دوسرے کو مارا جس سائڈ پے مریم کا باپ تھا اس سائڈ نے دوسری سائڈ کو کافی مارا۔۔وہ لوگ اپنے آپ کے بازو ارو سر میں چوٹیں لگا کر تھانے چلے گئے۔مریم کا باپ اور چاچے بھی تھانے کے لیے نکل پڑے مریم بھی ساتھ میں ہی تھی۔راستے میں اُن کو خیال آیا کہ وہ لوگ تو خود کو زخمی کر کے جا رہے ہے اور ہمیں تو کوئی زخم نہیں ہے اسطرح اُن کا پرچہ ہم پر ہوجائے گا اور ہم پکڑئے جائے گئے۔۔تب ایک نے کہا کہ ہم لوگ بھی خود کو زخم دے دیتے ہے دوسرے نے کہا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ہاں اگر ہم مریم کو زخم دیتے ہے تو ہمارہ پرچہ طاقت وار ہو جائے گا۔مریم کاباپ اور دونوں چاچے اس بات پے راضی ہو گئے جب مریم کو کہا تو وہ بچاری پہلے ہی تیارہ گی خود کو زخمی دیکھنے کے لیے نادان تھی بچاری اُس کو کیا پتہ تھا کہ یہ زخم اُس کا عمر بھر کا روگ بن جائے گا۔
راستے میں ایک جگہ ٹرٹکر روکا مریم کو اُتارہ ادھر اُدھر دیکھا تاکہ ہمیں کوئی دیکھ نا لے ٹرٹکر سے ہتھوڑی نکالی مریم کو دونوں چاچے ایک سائڈ پے لے گئے مریم کی آنکھیں بند کروائی ۔۔مریم کے بازو کے نیچے ایک اینٹ رکھی مریم کی کلائی پے زور سے ہتھوڑی ماری ۔مریم چلائی باپ اُس کا دور کھڑا چلا رہا تھا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔مریم کے ہاتھ سے تھوڑا سا پیچھے کلائی سے ہتھوڑی آرپار ہوگئی خون ہی خون کلائی ٹوٹ گئی مریم درد سے چلاتی رہی۔۔مگر ظالم چاچا نے اُسی کے ڈوپٹہ سے اُس کے بازو کو چھپا دیا۔کہتے ہے جب درد ذیادہ ہو اور خون کافی سارہ بہے جائے تو درد نہیں ہوتا شاہد مریم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔درد ذیادہ ہونے کی وجہ سے اُس کو درد نہیں ہو رہا تھا۔تھانے گئے جب پولیس والوں نے مریم کا ہاتھ دیکھا تووہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ہاتھ خود انہوں نے کاٹا ہے مگر وہ مجبور ہو گئے سرٹیفکٹ دینے پے اگر نا دیتے تو اُن کے لیے مسلہ ہو جاتا کیوں کہ لڑکی کا ہاتھ تھا پولیس والوں نے کافی گالیاں نکالتے ہوئے پرچہ کاٹ دیا۔مریم ایک ماہ ہسپتال میں رہی۔
۔خاندان میں صلح ہو گی مگر اس کے بعد کبھی ٹھیک نا ہوسکی۔مریم کو تین ماہ بعد ٹی بی ہوگیابچاری ایک سال تک گھر میں لاواث پڑی رہی کیوں کہ چاچے اپنا مطلب نکال کر سائڈ پر ہوگئے مریم کے باپ کے پاس جو تھا وہ سب پرچے پے لگ گیا۔۔۔۔2004میں مریم کو گلاب دیوی ہسپتال میں لایا گیا یہا ںاُس کا علاج شروع ہوا کافی بہتر ہو گئی۔مگر مریم کی ریڑکی ہڈی مطلب کمر کی ہڈی بڑھنا شروع ہو گئی۔ٹی بی سے مریم کو کچھ آرام آہ گیا مگر کمر کی ہڈی بڑھ گی ارو کافی بڑھ گئی۔مریم کو گھر لے کر چلے گئے۔پیسے نا ہونے کی وجہ سے مریم کا آپریشن نا ہوسکا۔2011مریم کے باپ نے کچھ پیسے جمع کر لیے ارو آپریشن کروانے کے لیے لاہور لایامگر مریم کو دوبارہ سے ٹی بی ہو گئی کیوں کہ وہ پہلے سہی طرح ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ڈکڑروں نے کچھ داوئیاں دی اور دوبارہ سے گلاب دیوی میں داخل کرنے کا مشوارہ دیا۔مریم کا باپ اُس کو گلاب دیوی لے گیا مگر وہا ں داخل نا ہوسکی راشوت کا زمانہ ہے جو مریم کے باپ کے پاس نا تھی بس واپس گائوں آہ گئے۔بچاری مریم پھر سے اپنے خوابوں میں کھو گئی۔۔
2015میں مریم کو دوبارہ لاہور لایا گیا۔٢ ماہ سرکاری ہسپتالوں کے دکھے کھاتی رہی جو پیسے مریم کے باپ نے جمع کیے ہوئے تھے وہ سرکاری ہسپتالوں کے ٹسٹوں پے خرچ ہوگئے پہلے جنرل ہسپتال میں دھکے کھاتے رہے وہاں کچھ نا بن سکا تو سروس ہسپتال میں آہ گئے ہر ہسپتال کے اپنے ٹسٹ کبھی mriتوکبھیcity scane کبھی بلڈ ٹسٹ کے پیسے جو جمع پونچی تھی وہ ایسے ہی خرچہ ہوگئی۔جب یہاں پے کھانے کے بھی پیسے نا رہے تو بچاری واپس گائوں چلی گئی اب مریم گائوں میں ہے۔اُس کی کمر کی ہڈی چھ انچ باہر نکل آئی ہے ایسا سمجھ لے کہ اب وہ کوبی ہوگئی ہے کمر کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے اب اُس کی ٹانگیں بے کار ہوتی جا رہی ہے مریم کے باپ کے پاس اب کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا علاج کروا سکے۔مریم اب گائوں میں ہے اپنے خوابوں کے ساتھ۔جب اُس کوکمر میں درد ہوتا ہے تو اُس کا باپ اُس کو pain killer دے دیتا ہے جس سے مریم کو کچھ دیر کے لیے آرام آہ جاتا ہے۔
اب مریم خواب نہیں دیکھ رہی ذیادہ طر رات باپ بیٹی بیٹھ کر گزرتے ہے کبھی مریم کہتی ہے کہ میرے خوابوں میں کوئی خلل پیدا کرتا ہے جس سے میرے خواب پورے نہیں ہو سکتے۔کبھی کہتی ہے کہ میرے خواب اللہ تک نہیں پہنچے جس کی وجہ سے وہ پورے نہیں ہو رہے۔مگر کبھی کبھی وہ پھر سے اپنے خوابوں میں کھو جاتی ہے اور پھر سے یہ کہتی ہے کہ جب میں کل سو کر اُٹھو گئی تو میرے علاج کے لیے پیسے جع ہوچکے ہونگے کہتی ہے اللہ کرے گا کہ کل میرے لیے کوئی فرشتہ آہ جائے گا جو میرا علاج کروادے گا وہ روز خواب دیکھتی ہے مگر صبح پھر سے وہ ہی مریم اُٹھتی ہے کوئی فرشتہ نہیں آتا پیسے جمع نہیں ہوتے۔اب اُس کو رات سے نفرت ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ دن کو تو وہ لوگوں کے جرمٹ میں اپنا درد برداشت کر لیتی ہے مگر جیسے ہی رات ہوتی ہے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی بنا بستر کے چار پائی پے لیٹتی ہے تو اُسے درد ہوتا ہے جو وہ برداشت نہیں کر سکتی۔وہ روز خواب دیکھتی ہے۔۔۔۔
یہ سب لکھنے کا میرا ایک مطلب ہے کہ شاہد ہم لوگ مل کر مریم کے خواب پورے کر سکے۔کیا مریم کی کمر کے لیے پیسے جمع ہو سکے گئے؟ کیا مریم کے علاج کے لیے کوئی آسماں سے فرشتہ آے گا؟؟؟؟؟ میری گزرش ہے آپ سب پڑھنے والوں سے اگر آپ لوگ صاحب حثیت ہے یا آپ کسی کو جانتے ہے جو مریم کے خواب پورے کر سکے تو خدا کے لیے مریم کے خواب پورے کرے۔۔۔۔
تحریر: محمد ریاض بخش