تحریر : شاہد شکیل
دنیا میں ہر انسان سپنے دیکھتا ہے کوئی جاگتے ہوئے تو کوئی گہری نیند میں فرق صرف اتنا ہے کہ جاگتی آنکھوں سے سپنے دیکھنے میں انسان کا دل و دماغ اور شعور مکمل طور پر فنکشن کرتا ہے لیکن نیند میں سپنے دیکھنے کا اختیار دماغی لہروں اور روزمرہ واقعات سے وابستہ ہوتا ہے ، سپنوں کا کیا مطلب ہے اور کیوں آتے ہیں اس موضوع پر کئی دہائیوں سے سائنسدان ریسرچ کر رہے ہیں اور حیرانگی کے علاوہ کشمکش میں مبتلا ہیں کہ انسان کا خواب دیکھنا کسی معمے سے کم نہیں ،کیوں انسانی دماغ میں خواب نما فلم چلتی ہے جس کا آغاز کہیں سے ہوتا اور اختتام یا انجام کہیں اور مختلف انداز میں ہوتا ہے،سپنے دیکھتے ہوئے انسان کا دل تیزی سے دھڑکتا ہے پھیپھڑوں میں جلن ہوتی ہے ٹانگیں بھاری اور وزنی ہو جاتی ہیں اور ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو کر اکثر اپنے آپ کو ایسی دلدل یا بھنور میں قید محسوس کرتا ہے جس سے نکلنا چاہے تونہیں نکل سکتا مایوس کن صورت حال ہوتی ہے اس جھنجھٹ سے آزاد ہونے کی کوشش میں بہت ہاتھ پاؤں مارتا ہے لیکن مزید دھنستا چلا جاتا ہے اسکے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ ان خوفناک لمحات سے اپنی جان چھڑائے۔
لیکن اچانک گھڑی کا الارم اسے ایک انجانی دنیا سے حقیقی دنیا میں واپس لے آتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد اگر خواب یاد رہے تو بھی کئی لمحوں تک اسکے دماغ پر مسلط رہتا ہے کہ یہ کیا تھا میں کہاں تھا کیوں ہوا اور چند منٹوں بعد دنیا داری میں کھو کر سب کچھ بھول جاتا ہے کہ چلو جو کچھ تھا خواب تھا شکر ہے کہ سچ نہیں تھا جان بچی سو لاکھوں پائے۔خواب پر ریسرچ کرنے والے پروفیسرمائیکل شریڈل جو لیبارٹری میں نیند ،انسانی جسم ، حرکات اور صحت پر تحقیق کرتے ہیں کا کہنا ہے کئی برسوں سے ہم انسان کے خوابوں ،تصورات اور خوابوں میں انسانی دماغ میں چلتی ہوئی تصویروں کے علاوہ جذبات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کیوں انسان کا دماغ کسی انجانی شے کا تعاقب کرتا ہے یا کیوں محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک انجانی دنیا میں پہنچ گیا ہے کئی انسان جاگتے ہوئے بھی چند لمحوں کے لئے خوابوں کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
انہیں خواب نہیں بلکہ لاشعوری طور پر سوچ کہا جاتا ہے لیکن رات کے کسی بھی پہر جب انسان گہری نیند میں ہوتا ہے کیوں دماغی الجھن کا شکار ہو کسی دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے،کیا دماغ تمام دن کا ڈیٹا جمع کرتا ہے ،کیا انسان کسی کے تعاقب میں رہتا ہے یا سوئے ہوئے دماغ کی لہریں اسے کسی شے کو حاصل کرنے پر اکساتی ہیں یہ کیا معمہ ہے کہ انسان پر سکون ہونے کے باوجود رات کو چین سے سو نہیں سکتا اور کیوں ایک جیسے خواب نہیں آتے ہمیشہ نئے روپ اور نئی کہانی کا جنم ہوتا ہے۔
یہ سوالات اور ان پر تحقیق کیلئے پچاس کی دہائی میں محقیقین نے ٹیپیکل ڈریم کوئیسچن کے نام سے ایک تحقیق کا آغاز کیا تھا کہ خواب کیوں آتے ہیں وغیرہ ،مختلف انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ کرنے کے بعد بھی سوائے ان نتائج کے کہ دماغی سوچوں یا فنکشن کے علاوہ کچھ نہیں ہے یعنی انسانی دماغ صرف سوچتا ہے اور جو دن بھر دیکھتا یا سنتا ہے یہ ہی واقعات اسے رات کو گہری نیند میں خواب کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں یعنی دن کو اکثر انسان سوچتے ہیں مجھے جلدی سے آفس پہنچنا ہے اور تقریباً بھاگتا ہوا ٹرین یا بس کی سمت رواں دواں ہوتا ہے کیونکہ اسکی سوچ ہوتی ہے اگر دیر ہو گئی تو جاب سے چھٹی ہو جائے گی۔
کئی افراد دن میں خواتین کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں اور خواب میں انہیں وہی دکھائی دیتی ہیں، انسانی ذہن پر کوئی حکمرانی نہیں کر سکتا لیکن بعض اوقات دن میں واقعات رونما نہ ہونے کے باوجود انسان سپنوں میں دیکھتا ہے کہ وہ گہرے پانی میں ہے یا آسمان کی بلندی سے زمین کی سمت محو پرواز ہے یا گھپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے ،علاوہ ازیں کسی قسم کے ٹیسٹ میں ناکامی کی صورت ہو مختلف اقسام کا روزگار بھی خوابوں کی وجہ بنتا ہے یا فوتگی جیسے واقعات اکثر ذہن میں گردش کرنے سے سپنوں کا آغاز ہوتا ہے۔ایک مطالعے میں بتایا گیا کہ مردوں اور عورتوں کے خواب مختلف ہوتے ہیں۔
عام طور پر مرد دولت، جنسی خواہش اور جارحیت پر مبنی خواب دیکھتے ہیں جبکہ خواتین انسانوں کے تنازعات مثلاً فیملی کونفلکٹ کے علاوہ خوبصورت افراد جن میں ماڈلز یا فلم ایکٹرز اور میک اپ یا ملبوسات و فیشن پر سپنوں کی دنیا میں کھوئی رہتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے سپنوں کا بہت گہرا تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے منسلک یا وابستہ ہے۔
انسان کا دماغی سنیما اتنا طاقت ور نہیں اسی لئے دن بھر کی سوچیں رات کے کسی پہر اس کے دماغی خلیات میں پنجے گاڑھتی ہیں اور وہ مختلف انداز سے سپنوں کو دیکھتا ہے مثلاً دن کے اوقات میں اگر کوئی کسی کا تعاقب نہیں بھی کرتا تب بھی انسان خواب میں دیکھتا ہے کہ کوئی اسکے عقب میں ہے اور اسے مار ڈالے گا حالانکہ ایسے خوابوں کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ماہرین کا کہنا ہے خواب ہمیشہ خوفزدہ اور اعتماد کے فقدان کے سبب آتے ہیں اور جو افراد زندگی میں پر اعتماد اور حالات سے مقابلہ کرنا جانتے ہیں انہیں کم وبیش ہی خوفناک یا خطرناک سپنے آتے ہیں۔
سپنے دیکھنا بری بات نہیں لیکن سپنوں کی تعبیر بہت کم لوگوں کو ملتی ہے بھلے وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھیں یا گہری نیند میں۔ایک گانا یاد آیا جو مرحوم رنگیلا پر پکچرائز ہوا تھا ہم نے جو دیکھے خواب سہانے آج ان کی تعبیر ملی لیکن رنگیلا کے سپنوں کا دی اینڈ بہت بھیانک ثابت ہوتا ہے ۔دیکھا جائے تو کاش اور خواب دو مختلف الفاظ ضرور ہیں۔
لیکن ان کے معنوں میں زیادہ فرق نہیں جو انسان جاگتی آنکھوں سے کاش کا لفظ استعمال کرتا ہے مطلب وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے۔یعنی کاش میں ملک کا صدر ہوتا ،کاش میں فیکٹری کا مالک ہوتا ،کاش میرے پاس بھی دولت ہوتی، کاش میں بھی ایکٹر ہوتا کاش۔۔۔
تحریر : شاہد شکیل