تحریر : کامران لاکھا
میرے ایک عزیز نے انجینئرنگ مکمل کی تو اس کی خوشی دیدنی تھی اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بہت فخر تھا اور ہم اپنے دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ ہمارا اس فلاح رشتہ دار نے اعلیٰ تعلیم مکمل کی ہے جس کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں اور اس کو مکمل کرنے کیلئے ذہنیت کی بہت ضرورت ہوتی ہے عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنی زیادہ تعلیم حاصل کرکے شائد ان کے وہ تمام خواب پورے ہوجائیں گے جسے کبھی انہوں نے دیکھا تھا جن کی تعبیر کو وہ آنکھوں میں سجائے اس مشکل سفر کے مسافر بنے تھے اس کا عملی مظاہرہ میں جب کبھی اس رشتہ دار سے ملتا ہوں تو اس کی آ نکھوں میں ضرور دیکھتا ہوں ہاتھ میں اعلیٰ تعلیم کی ڈگری لئے وہ کسی بے بس انسان کی طرح ہی لگتا ہے جس کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوتا یقین کیجئے جب ایک طالب علم اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد یونیورسٹی اور ادارے فارغ التحصیل ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب تیر رہے ہوتے ہیں اس کا دل عملی زندگی میں قدم رکھنے کیلئے بے تاب ہوتا ہے
حسین خوابوں کی وادی میں اس وقت اضافہ ہوجاتا ہے جب اس کی ماں دروازے پر اس کا استقبال کرتی ہے اپنے بیٹھے کو سینے سے لگاتی ہے ماتھے پہ بوسہ دیتی ہے اور کہتی ہے میرا پتر افسر بنے گا وہی ماں جس نے اپنے بیٹھے کی تعلیم کیلئے اپنے زیور بیچ دیئے تھے اس کے والد اسے تھپکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاباش بیٹھا تم نے میراسر فخر سے بلند کر دیا وہی باپ جس نے شب و روز محنت کرکے اپنے بیٹھے کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کی تمام تر خواہشات کو پورا کیا تھا وہ بھائی اپنے ماں باپ ،بہن کے خوابوں کو اپنے خواب بنا لیتا ہے وہ اپنی ماں کو کہتا ہے میری جاب لگے گی تو میں اپنی اماں جی لئے نئے زیور خریدوں گا اپنے والد گرامی کو بازوں سے تھامتا ہے اور فرط جذبات میں کہتا ہے بابا آپ کے سارے قرضے اتھاروں گا بابا اب آپ نوکری نہیں کریں گے پھر کہانی وہیں رکھ جاتی ہے وہ ہر اتوار کو اخبارات کے صفحات آسامیوں کے اشتہارات سے کالے تو ضرور دیکھتا ہے ہر اتوار وہ بیسوں اداروں میں درخواستیں بھیجتا ہے
نوکری کی تلاش میں انٹر ویوز کے تجربات ایک دو نہیں بیسوں بار ہوچکے ہیں ایک ہفتہ ایک ماہ چھ ماہ ایک سال دو سال گزر جاتے ہیں مگر نوکری ہے جو اس باہمت نوجوا ں کو نہیں ملتی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کے پاس سفارش نہیں ہے اچھی نوکری کیلئے لئے جانے والا نذرانہ نہیں ہے اوپر والے لوگوں سے تعلقات نہیں ہیں اسی نوکری کے چکر میں وہ اووریج ہوجاتا ہے اور جہاں کہیں نوکری کی تھوڑی بہت امید ہوتی بھی ہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہے انہی اخبارات کے اندرونی صفحات کے کسی کونے کھدرے میںایک خبر پڑھنے کوملتی ہے بے روز گار نوجوان نے حالات سے تنگ آکر خود سوزی کر لی یہیں انجام ہوتا ہے ۔ جب خواب ٹوٹ جاتے ہیں یہ کہانی محض کہانی نہیں یہ ہر اس طالب علم کی روداد ہے جس نے غریبی میںآنکھ کھولی اور پاکستان کے بد ترین تعلیمی نظام کے باوجود اعلیٰ ڈگری تک اپنا سفر کیا ایک ایسا سفر جس کے راستے اتنے کٹھن ہیں کہ اکثر ہم سفر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور کروڑوں میں سے ہزاروں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر پاتے ہیں
دیہاتوں میں تو کم لوگ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ملتے ہیں زندگی کے بے شمار تلخ تجربات سے گزر جانے کے بعد A+گریڈ میں پاس ہونے والا طالب علم اپنی زندگی سے یا تو یاتھ دھو بیٹھتا ہے یا جرائم کی طرف گامزن ہوجاتا ہے یہ پھر غلامی کا کڑوا گونٹ بھر کے چھوٹے چھوٹے دفاتر میں کلرکی کرتا ہے یا کسی چوراہے پر ریڑھی لگا کرکرب و غم کی داستان بن جاتا ہے یہاں کہیںہمارے حکمرانوں کی دی ہوئی سکیموں کے مطابق ٹیکسی چلاتا ہوا نظر آتا ہے آپ آج بھی جا کر دیکھ لیں بہت سی حکومتی اداروں میں اتنی تعلیم آفسران کے پاس نہیں ہوتی جتنی ان کے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کے پاس ہوتی ہے نسبت کم پڑھے لکھے لوگ اوپر اور پڑھے لکھے نیچے کام کر رہے ہوتے ہیں وجہ صرف سفارش ، اقربا پروری ، رشوت ،میرٹ کی پامالی حکومت کی ناقص پالیسی اور ناجانے کیا کیا خرابیاں ہیں جو ان نوجوانوں کے دلوں پر مونگ دل رہی ہے اور آج کا نوجوان چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پا رہا کیونکہ ہمارے ہاں حکمران کو ضرور بدل رہے ہیں مگر میزان وہی ہے
جس میں ہر طرف غلامی جیسے حالات کا دور دورہ ہے پاکستان کے آج کل کے حالات میںایک طالب علم کا مستقبل کیسے محفوظ ہو گا۔ جب انہیں نوکریاں دینے کی بجائے ٹیکسی ڈرائیور بنانا اچھا خیال کیا جاتا ہے ۔ سفارش اقربا پروری ، رشوت ، میرٹ کی پامالی کا کلچر جہاں نظام بن گیا ہو وہاں ایک پڑھا لکھا ایماندار شخص کیا کرے گا سفارش اقرباپروری ، رشوت، میرٹ کی پامالی میں لپیٹے نظام کی وجہ سے پورے نظام میں بد بو پھیلی ہوئی ہے جب خواب ٹوٹ جاتے ہیں تو جرائم جنم لیتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ جام پور میں چوری اور ڈکیٹیوں میں پکڑے جانے والے نوجوان کی تعلیمی قابلیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جن کو مختلف اخبارات میں بھی رپورٹ کیا تھا مگر یہاں کسی کے سر میں جو تک نہیں رینگی کہ آخر کتنے پڑھے لکھے نوجوان کیونکر ملوث ہوئے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں، بعض بین الاقوامی سروے کرنے والی فرموں کے مطابق حالیہ چند سالوں سے پاکستان سے ذہین دماغ بہت تیزی سے بیرون ممالک منتقل ہو رہے ہیں۔
جس کی بنیادی وجہ بے روزگاری اور ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کا استحصال بھی ہے اور ایسے ذہین لوگ جن کی پاکستان کو بہت سخت ضرورت ہے اگر اس نازک مرلے پر جب ملک کی خطرناک قسم کے بہرانوں کا سامنا کر رہا ہے یہ بہترین ذہن باہر کی دنیا منتقل ہو رہے ہیں تو یہ موجودہ حکومت کیلئے الٹی میٹم ہے پاکستان کے کروڑوں غیور طلبہ آج یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ یہ پیارا وطن ان کے آبائو اجداد نے اس لئے حاصل کیا تھا کہ انکو یہاں جائز مقام ملے گا باعزت روزگار اور ترقی کے مساوی موقع ملیں گے مگر ملا کیا ؟؟؟یہی سوال بیداری طلبہ کا سبب بن رہا ہے اور یہی صدا لاکھوں دلوں میں چنگاری بن کے اٹھ رہی ہے امن و فلاح ملکی ترقی کامرانی اسی میں ہے کہ نوجوانوں کو درست سمت دی جائے انکے لئے مناسب اور جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں اور ان کے خوابوں کو تعبیر دی جائے وگرنہ یہ چنگاریاں کہیں شعلوں میں تبدیل ہوجائیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تحریر : کامران لاکھا