تحریر ؛ سجاد علی شاکر لاہور
شراب کو مذہب اسلام نے حرام قرار دیا ہے ‘ شراب بنانے والے ‘ پینے والے ‘ شراب کا کاروبار کرنے والے ‘ اس کی آمدنی کھانے والے ‘ شراب کو تحفے میں دینے والوں پر محسن عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔پاکستان میں سر عام شراب پینے اورکشید کرنے پر پابندی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ غیرقانونی طور پر شراب بنانے اور بیچنے کا کاروبار روز بروز ترقی کرتا جا رہا ہے۔پاکستان میں ڈیروں اور گھروں میں واقع شراب بنانے والی ہزاروں بھٹیاں سالانہ بنیادوں پر لاکھوں لیٹر ‘دیسی شراب’ بناتی ہیں لیکن طلب ہے کہ کم ہوتی نظر نہیں آتی۔دیسی ساختہ شراب کیکر کی چھال، گندم، خام چینی اور کسی بھی من پسند فروٹ کو مِکس کرتے ہوئے بنائی جاتی ہے اور کوالٹی کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا۔
بعض افراد کے نزدیک غیر معیاری شراب کی دستیابی بھی ان لاکھوں پاکستانیوں کے لیے ایک نعمت ہے، جنہیں فیکڑی کی بنی شراب خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔پاکستان میں ڈیروں اور گھروں میں واقع شراب بنانے والی ہزاروں بھٹیاں سالانہ بنیادوں پر لاکھوں لیٹر ‘دیسی شراب’ بناتی ہیں ہمارے ملک میں شراب حرام ہے۔ لیکن اْن کے لیے جو قانون کی گرفت میں آسانی سے آجاتے ہیں۔مگر قانون جن کے پاؤں کی جوتی ہے اْن کے لیے شراب تو کیا ہر قسم کی حرام کاری اور حرام خوری حلال ہے۔کیا اس ملک میں شراب کا کاروبار نہیں ہو رہا ؟ کیا بڑے بڑے ہوٹلوں میں اس کی سہولت میسر نہیں؟ کیا بڑی بڑی نجی محفلوں میں مہمانوں کی تواضع اس مشروب مغرب سے نہیں کی جاتی؟ یہاں تو شادیوں میں دلہے بھی اس لعنت سے نہیں بچ پاتے بلکہ دوستوں کے ساتھ پی کر فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنی بہادری کا بھی ثبوت دیتے ہیں۔شراب پینے کے نقصانات اس قدر کثیر اور گہرے ہیں کہ شاید کسی دوسری چیز میں اتنے نقصانات نہ ہوں۔ بدن انسانی پر شراب کے نقصانات یہ ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ معدے کے فعل کو ناکارہ کر دیتی ہے۔
کھانے کی خواہش کم کر دیتی ہے’ چہرے کی رعنائی ختم کرکے اس کی ہیت بگاڑ دیتی ہے ‘ پیٹ بڑھ جاتا ہے۔ چالیس سال کی عمر میں اس کے بدن کی ساخت ایسی ہو جاتی ہے’ جیسے ساٹھ سالہ بوڑھے کی ساکھ۔وہ جسمانی اور قوت کے اعتبار سے فارغ ہوئے بوڑھوں کی طرح ہو جاتا ہے’ اس کے علاوہ شراب جگر اور گردوں کو خراب کر دیتی ہے’یہ تو شراب کی جسمانی اور بدنی نقصانات ہیں’ لوگ سمجھتے ہیں کہ شراب پی کر جب تک نشہ رہتا ہے۔ اس وقت تک عقل کام نہیں کرتی’ لیکن اہل تجربہ اور ڈاکٹروں کی تحقیق یہ ہے کہ نشہ کی عادت خود قوت عاقلہ کو بھی ضعیف کر دیتی ہے’ جس کا اثر ہوش میں آنے کے بعد بھی رہتا ہے۔ شراب نہ جزوبدن بنتی ہے’ اور نہ اس سے خون بنتا ہے’ بلکہ اس کا فعل صرف یہ ہوتا ہے کہ خون میں ہیجان پیدا کر دیتی ہے’ جس سے وقتی طور پر قوت کی زیادتی محسوس ہونے لگتی ہے’ اور یہی خون کا دفعتاً ہیجان بعض اوقات اچانک موت کا سبب بن جاتا ہے۔’ شراب سے شرائین یعنی وہ رگیں جن کے ذریعے سارے بدن میں روح پہنچتی ہے سخت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بڑھاپا جلدی آجاتا ہے’ شراب نوشی کرنے والے کے حلقو ںپرخراب اثر پڑتا ہے۔
شراب کا اثر اگلی نسل پر بھی پڑتا ہے’ شرابی کی اولاد کمزور رہتی ہے’ اور بعض اوقات اس کا اثر قطع نسل تک جا پہنچتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شراب پینے کی ابتدائی حالت میں بظاہر انسان اپنے جسم میں چستی و چالاکی محسوس کرتا ہے۔ لیکن درحقیقت شراب ایک ایسا زہر ہے کہ جس کا اثر آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور کچھ عرصہ بعد یہ سارے نقصانات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔شراب کا ایک بڑا نقصان تمدنی یہ ہے کہ وہ اکثر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے اور پھر یہ بغض و عداوت دور تک انسان کو نقصان پہنچاتی ہے’ قرآن پاک کی سورہ مائدہ میں خصوصیت کے ساتھ اللہ پاک نے اس فساد کا ذکر فرمایا ہے۔ ترجمہ: ” یعنی شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کر دے’۔ شراب انسان کو کھلونا بنا دیتی ہے کہ جس کی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھ کر بچے بھی ہنستے ہیں۔کیونکہ شرابی کا کلام اور اس کی حرکات سب غیر متوازن ہو جاتی ہیں’ شراب کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ ام الجنائث ہے’ انسان کو تمام برے برے جرائم پر آمادہ کر دیتی ہے۔
زنا ء اور قتل اکثر اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ عام شراب خانے زنا اور قتل کے اڈے ہوتے ہیں’ شراب انسان کی روحانی حس کو کچل کر رکھ دیتی ہے کیونکہ نشہ کی حالت میں نہ نماز ادا ہوسکتی ہے’ نہ اللہ کا ذکر ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسری عبادت۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شراب ام الخبائث اور ام الفواحش ہے ‘ اس کو پی کر انسان برے سے برے گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں پیغمبر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ”شراب اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے” حضرت انس کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ‘ ـ١ شراب بنانے والا ـ(٢) نچوڑے والا ـ(٣) پینے والاـ(٤) پلانے والاـ(٥)اس کو لاد کر لانے والا ‘ـ(٦) جس کیلئے لائی جائے ـ(٧)اس کا بیچنے والاـ(٨) خریدنے والاـ(٩) اس کو پیدا کرنے والا(١٠)اس کی آمدنی کھانے والا ۔جب تک شراب کی حرمت نہیں آئی تھی۔ تو شراب مدینہ میں بھی پی جاتی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جب شراب کو حرام قرار دیا گیا۔
تو حضورۖ کے منادی نے مدینہ کی گلیوں میں یہ آواز لگائی کہ مسلمانو! شراب حرام کر دی گئی ہے’ تو جس کے ہاتھ میں جو برتن شراب کا تھا اس نے اس کو وہیں پھینک دیا جس کے پاس کوئی سبو یا خم شراب کا تھا اس کو گھر سے باہر لاکر توڑ دیا ‘ بعض روایات میں آتا ہے کہ اعلان حرمت کے وقت جس کے ہاتھ میں جام شراب لبوں تک پہنچا ہوا تھا اس نے وہیں سے اس کو پھینک دیا ‘ مدینہ میں اس روز شراب اس طرح بہہ رہی تھی۔جیسے بارش کا پانی بہہ رہا ہو۔صحابہ کرام نے فرمانبرداری کرتے ہوئے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر آنا ً فاناً نہ صرف یہ کہ شراب کو ترک کر دیا ۔ بلکہ اس کاروبار سے منسلک حضرات نے حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجاآوری میں اس کے کاروبار پر بھی لعنت بھیج دی ۔حکم الٰہی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی عادات میں ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا کیا کہ انہیں شراب اور جوئے سے شدید نفرت ہوگئی۔
تحریر ؛ سجاد علی شاکرلاہور
sajjadalishakir@gmail.com 03226390480