تحریر: شاہ بانو میر
درمکنون تقریب رونمائی سفیر پاکستان ڈاکٹر تقی عابدی
انیلہ احمد
احساس کی قندیل سے واقف ہوتے ہیں
وہ ایک سے دو اور دو سے پانچ ہوتے ہیں
درمکنون وجود پاتا ہے تب
شاہ بانو میر جیسے دنیا میں آتے ہیں
ڈاکٹر تقی عابدی ہیں روح قلم کی
ہم خاکساروں سے جب ہم کلام ہوتے ہیں
انسانیت کے لبوں سے نکلتی ہیں دعائیں
غالب اقبال جیسے جب سفیر ہوتے ہیں
ان احباب نے شرف بخشا ہے ہم کلا می کا
ورنہ ہم جیسے تو لاکھوں ہوتے ہیں۔
شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی جانب سے 27 فروری بروز جمعہ ویلئیر لو بیل کے خوبصورت ریسٹورنٹ ذائقہ میں 30 1 سہ پہر شروع ہونے والی “” تقریب رونمائی در مکنون “” کی ادبی تقریب بھرپور انداز سے 30 5 تک جاری رہی۔ اکیڈمی کی معزز ساتھی شاز ملک کی دو کتابوں کی بھی رونمائی کی گئی۔ اکیڈمی بہت ممنون اور مشکور ہے جناب سفیر کی کہ ناسازی طبع کے باوجود وہ تشریف لائے اور تقسیم انعامات کے بعد وہ تشریف لے گئے۔ تقریب کے مہمان خصوصی جانب سفیر پاکستان محترم غالب اقبال اور کینیڈا سے تشریف لائے دنیائے ادب کی یکتا شخصیت استادوں کے استاد محترم ڈاکٹر تقی عابدی صاحب تھے۔
ان کے ہمراہ سفارت خانہ پاکستان سے تشریف لائے ہیڈ آف چانسلری جناب عمار امین صاحب تھے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا ۫ اس تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عام گھریلو خواتین شامل تھیں جن کیلئے گھر سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جیسے اب خواتین ہمیشہ اکیڈمی کو اپنے ساتھ کا یقین دلاتی ہیں اور ہر پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ سفیر محترم اور ڈاکٹر تقی عبادی صاحب پہلی بار کمیونٹی کی اس صنف سے خطاب کر رہے تھے جو عام سوچ میں غیر اہم ہے۔ یا بے شعور ہے۔ اس عورت کا کام صرف گھر داری ہے
مگر آج یہ عام عورت بول رہی تھی
بیان کر رہی تھی
آگاہی دے رہی تھی
شعور جگا رہی تھی
احساس دلا رہی تھی
علم کی روشنی پھیلا رہی تھی
خواہ وہ قرآت ہو نعت ہو ملی نغمہ ہو دینی سوچ ہو معاشرتی گھمبیر مسائل ہوں آج علم کی تقسیم عام تھی اور یہ تقسیم یہی عام عورت چولہا چونکا چلانے والی کر رہی تھی انگشت بدنداں تھی حیرت بھی آج کہ یہ کیسا انقلاب آگیا؟
خواتین ہی خواتین اور ایسا باشعور باکمال علم اور ایسا ماحول ایسا ٹھہراؤ ایسا انداز تخاطب اور انداز تکلم سبحان اللہ آج یہ خاموش رہنے والی عام عورت بتا رہی تھی کہ اسکا وجود ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہے۔ وہ اگر برداشت اور تحمل کے اوصاف کے ساتھ گھر داری کر سکتی ہے رشتوں کو نبھا سکتی ہے تو وہ اپنی ذات کی خوبیوں کو اچھے ماحول میں شعور کی آگہی کیلئے اجاگر بھی کر سکتی ہے۔ آج وہی ماحول شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی جانب سے ملا تو آج ان کے کھِلے ہوئے چہرے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اگر انہیں آسانیاں ملیں تو بہت سی قابل خواتین گھروں میں مبحوس اداس ویران زندگی ترک کر کے پورے اعتماد کے ساتھ ادبی میدان میں نکلیں اور اپنی اہلیت کے جواہر سے نگاہیں خیرہ کر دیں۔
انہی کیلئے یہ پلیٹ فارم بنا ہے جہاں صرف اور صرف خواتین ہیں اور کشادہ سوچ کے ساتھ باہمی عزت و احترام ہر آن دیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسے ہی اکیڈمی کی دست راست بہترین شخصیت اور اکیڈمی کا فخر محترمہ وقار النساء صاحبہ نے پروگرام کا آغاز کیا۔ وقار النسأ یہ نام معروف نام بن چکا ادبی دنیا کا۔ درس و تدریس سے وابستہ رہی ہیں اکیڈمی کی بنیادی رکن ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں پہلے درمکنون میں ان کا کام اور ان کی بچیوں کا سب پڑھ چکے سراہ چکے ریڈیو پر پروگرام کر چکی ہیں ۔ بے شمار آرٹیکلز لکھ چکی ہیں ۔ درمکنون میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ پروگرام کی ترتیب و پیشکش انہی کی ذمہ داری رہی ہے ہمیشہ جسے وہ ذمہ داری سے خوبصورتی سے مکمل کرتی ہیں۔
دوران پروگرام تلاوت کلام پاک سے لے کر قومی ترانے تک میں بغور مشاہدہ کرتی رہی
ہال میں موجود خواتین کے چہروں پر ڈوبتا ابھرتا تحیر ملی نغموں سے طاری سحر اکیڈمی کی خواتین کی سبق آموز دلچسپ معلوماتی گفتگو۔ مہمانِ گرامی کے چہروں کا مجھے گاہے بگاہے چہروں پے حیرت کی لکیریں مٹتی ابھرتی محسوس ہوئیں۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچیاں اس پروگرام میں موجود تھیں جن میں جاب کرنے والی بچیاں یونیورسٹی جانے والی بچیاں ڈاکٹر بھی موجود تھیں نئی نسل کی شمولیت اور مکمل دلچسپی نے اس پروگرام کو مزید نکھار دیا۔ خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر سفیر پاکستان نے فرمایا کہ سفارت خانے میں ہونے والے پروگرام میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر تقی عابدی صاحب نے فرمایا کہ میں آسانی سے کسی کی تعریف نہیں کرتا یہاں ماؤں بہنوں بیٹیوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے ۔ ایسا پروگرام میں نے اتنی عمر میں دنیا بھر میں سفر کیا مگر نہیں دیکھا عمار امین صاحب نے گفتگو کرتے ہوئۓ کہا کہ ان کا کام مختلف نوعیت کا ہے ان کا ادب سے تعلق کم ہے مگر اتنے پروگرام دیکھے ایسا باشعور اور علمی خواتین کے ساتھ جامع پروگرام آج دیکھا اور سنا جو بہت اچھا لگا۔ وقار انساء صاحبہ نے اتنے طویل پروگرام کو احسن انداز میں تکمیل تک پہنچایا انہی کا خاصہ ہے۔
ہمیشہ کہتی ہوں بنیاد کی اینٹ مضبوط ہو تو عمارت کی مضبوطی پر کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا ۔ کیا اکیڈمی اور کیا دینی ساتھ ہر جگہہ ساتھ ساتھ ہیں الحمد للہ نگہت سہیل صاحبہ ناسازی طبع کے باوجود تشریف لائیں اور سفیر پاکستان سے اپنا اور انیسہ سہیل کا کپ وصول کیا۔ انیلہ احمد نے بہت پر اثر اور سبق آموز باتیں کیں اردو زباں کی زبوں حالی کا نوحہ سنایا ۔ کیسے گھروں میں اردو زبان کو غیر ضروری سمجھ کے احساس کمتری میں مبتلا والدین ختم کر چکے انیلہ احمد نے بہت خوبصورت نظم بڑے مؤثر انداز میں پیش کی۔
نظم تھی یا دریا کو کوزے میں بند کیا سب مہمانوں کو بیان کر دیا۔ شاز ملک صاحبہ اپنی گفتگو میں اکیڈمی کو سراہا اور اپنی شمولیت کے بارے میں بتایا شاز ملک صاحبہ نے اپنی تصانیف کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا اور اپنی نظم بھی سنائی۔ جسے بیحد سراہا گیا ڈاکٹر صاحب نے کہ کر دوبارہ ان سے ان کی کتاب کی ایک اور نظم سنی ۔ جو شاعری اور اردو کے ساتھ ان کی محبت کا بین ثبوت ہے۔ شازیہ شاہ صاحبہ اپنے مخصوص دھیمے خوبصورت انداز میں تشریف لائیں ۔ تعلیم نفاست معیار ہمیشہ ان کی گفتگو کا حاصل رہا ہے۔
در مکنون کے نئے انگلش شعبے کی انچارج ہیں ۔ کام سے بے پناہ لگن اور احساس ذمہ داری سے سرشار اکیڈمی کا بیحد قیمتی اثاثہ ہیں ۔ ادارے کی بانی شاہ بانو میر صاحبہ کو جیو اردو کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ پر مبارکباد دی اور سفیر محترم اور ڈاکٹر صاحب کی خدمات پر روشنی ڈالی نوشین محمد دینی ادارے سے وابستہ ہیں اور دین کے کاموں کیلئے دن رات مصروف عمل رہتی ہیں ۔ بالعموم ایسے پروگرام میں شرکت نہیں کرتیں مگر ان کا کہنا تھا کہ انہیں دعوت ملی تو وہ جانتی ہیں کہ اس ادارے کا کوئی کام بے مقصد نہیں ہوتا لہٰذا وہ ہمیشہ شاہ بانو میر صاحبہ کے ساتھ ان کا ساتھ دیں گی۔ ادارے کی صدر مبشرہ نعیم نے آخر میں تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا سفیر پاکستان ڈاکٹر صاحب اور ہال میں موجود خواتین کا۔ پیرس کی نئی تاریخ رقم ہوئی ہے جناب سفیر پاکستان جو کمیونٹی کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں۔
دوسری جانب اردو ادب کا مایہ ناز قابل فخر نام ڈاکٹر تقی عابدی صاحب محترم عمار امین صاحب یہ ایسے نام ہیں کہ ان کا کسی پروگرام میں آنا اصل میں اسکی حیثیت کو تسلیم کرنا ہے۔ اللہ پاک نے ادارے کو ایک الگ شناخت سے آج نوازا جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے تعبیر مل گئی جب ان کی جانب سے اکیڈمی کی تمام محترم خواتین کو ان کے کام کو در مکنون میں شامل ان کی تحریروں کو اتنا سراہا گیا۔ یہ اعزاز یہ فخر اللہ پاک کا خاص کرم اور ادارے کی تمام خواتین کی محنت کا صلہ ہے درمکنون 3 انشاء اللہ جلد ہی شروع کیا جائے گا ۔جاری ہے۔
تحریر: شاہ بانو میر