تحریر : عبدالرزاق
کسی بھی غیرت مند قوم کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی خود مختار ی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتی اپنے ملک کی حدود میں معمولی سی بھی نقب لگانے والے ہاتھوں کو ہمیشہ کے لیے کچل دیتی ہے۔ زندہ قوموں کی یہ نشانی بھی ہے کہ وہ اپنی طرف اٹھنے والی کسی بھی میلی آنکھ کو قطعی برداشت نہیں کرتی بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک ایسی نظریاتی ریاست جسے قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کار نے انتھک کاوشوں اور جدوجہد سے تخلیق کیا اسکی حدود کو امریکہ جیسا سفاک ملک ڈرون حملہ کر کے اس کی داخلی خود مختاری کو تار تار کر دیتا ہے لیکن حکومت وقت کو اتنی جرات بھی نصیب نہیں ہوتی کہ وہ امریکہ کے روبرواس واقعہ پر احتجاج کر سکے۔
حکومتی عمل کے بر عکس چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے ڈرون حملوں پربرہمی کا اظہار کرتے ہوے امریکہ کو واضح پیغام دیا ہے کہ ڈرون حملے ناقابل برادشت ہیں اور ہماری خود مختاری پرکاری ضرب ہیں ۔ علازہ ازیں آرمی چیف پاک فوج کی شبانہ روز محنت کے تناظر میں بلوچستان کی صورتحال سے بھی کافی مطمن دکھائی دیتے ہیں اور ان کے خیال میں بلوچستان کے حالات تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔میری طرح چند وہ لوگ جن کا قلم اور کاغذ سے چولی دامن کا ساتھ ہے حیران ہیں کہ ایسے موقع پر حکومت کیوں خاموش ہو جاتی ہے۔
امریکہ کی جانب سے کوئی ڈرون حملہ ہو یا بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر اندھا دھند اور بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات کا تسلسل ہو حکومتی حلقوں میں معمولی سا بھی ارتعاش دکھائی نہیں دیتا۔ بیان بازی میں ید طولیٰ کے حامل وزیر وں مشیروں کی زبان گنگ کیوں ہو جاتی ہے۔ سمجھ سے بالا تر ہے۔ان مواقعوں پر بھی دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا فریضہ بھی پاک فوج کے سربراہ کو ادا کرنا پڑتا ہے اور قومی غیرت کے تمام تقاضے بھی فوج کو ہی نبھانے پڑتے ہیں۔یہ صورتحال انتہائی توجہ کی متقاضی ہے اور حکومت کو فی الفور اس بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
میری دانست میں اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ریاست پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں یو ٹرن لے لینا چاہیے ۔جس طرح امریکہ نے سعودی عرب اور پاکستان سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور اپنا جھکاو بھارت اور ایران کی جانب مذید بڑھا دیا ہے پاکستان کو بھی چائنا سے اعتماد سازی کی اک نئی داستان رقم کر کے دوستی کے بندھن کو مذید مضبوط کرنا چاہیے تا کہ پاکستان کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک قابل اعتبار عالمی طاقت کا ساتھ میسر ہو ۔نئے جنم لینے والے عالمی حالات کے تناظر میں حکومت پاکستان کو یہ تاثر زائل کر دینا چاہیے کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے ۔دشمن کا دوست کبھی دوست نہیں ہو سکتا۔
امریکہ پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارتی محبت میں گرفتار ہو چکا ہے لہٰذا حکومت پاکستان کو امریکہ سے چوکنا اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے ۔ممکن ہے ڈرون حملہ پر حکومت کا ردعمل اس وجہ سے بھی واضح نہ ہو کہ میاں نواز شریف بیمار ہیں اور بیرون ملک زیر علاج ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وزیراعظم جب سے دل کے عارضہ میں مبتلا ہوئے ہیں اور لندن پہنچے ہیں تب سے پاکستان کے انتظامی معاملات کے حوالے سے ملک پیچیدہ صورت حال سے دو چار ہے کیونکہ پاکستان کے آئین میں نائب وزیر اعظم کی گنجائش نہیں ہے اس لیے وزیراعظم کے اختیارات کسی دوسرے شخص کو قانون کی رو سے تفویض نہیں کیے جا سکتے ۔ ماضی میں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ ڈپٹی وزیراعظم کی مشق کی جا چکی ہے لیکن یہ عہدہ باقاعدہ آئین کا حصہ نہیں بنا۔لیکن ملکی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوے ضروری ہے کہ کوئی پارلیمینٹرین یا منسٹر ہمہ وقت وزیر اعظم کی کمی پوری کرنے کے لیے دستیاب ہو ۔ویڈیو لنکس کے ذریعہ ملکی نظم و نسق سنبھالنا مضحکہ خیز ہے ۔ ویڈیو لنکس کے استعمال سے آن گراونڈ صورتحال کا اندازہ کرنا اور اس کے تناظر میں درست احکامات صادر کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ویسے بھی وزیر اعظم کو جنہوں نے ملک کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور آئندہ بھی وہ پاکستان کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان کو مکمل آرام کی ضرورت ہے ۔ان حالات کے تناظر میں اور ملکی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف صاحب کا فرض بنتا ہے کہ وہ فوری طور پر جب تک کہ وہ لندن میں قیام پذیر ہیں اور اپنے علاج معالجہ میں مصروف ہیں کسی ذمہ دار اور قریبی ساتھی کو جو امور مملکت کے معاملات کو احسن طریقے سے انجام دینے کی قدرت رکھتا ہو کچھ دنوں کے لیے اختیارات اس کے سپردکر کے ملک کا نظم و نسق بہتر طور پر چلانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے میاں نواز شریف کی غیر موجودگی میں اسحاق ڈار اور چوہدری نثار علی خان بلا شبہ ایسی شخصیات ہیں جو امور مملکت کو نہایت عمدہ طریقے سے چلا نے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ان میں سے کسی ایک کو وقتی طور پر اختیارات منتقل کر کے ملک کے معاملات چلانے چاہییں اگرچہ میاں نواز شریف جو ایک بصیرت افروز سیاستدان ہیں ان کی کمی تو پوری نہیں کی جاسکتی لیکن میاں صاحب کے صحت کے مسائل کی بنا پر اور ملک سے غیر موجودگی کی وجہ سے ملک کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہمہ وقت ایک فعال،متحرک اور قابل شخصیت کی موجودگی ناگریز ہے اب جسطرح امریکہ نے بلوچستان کی سرزمین پر ڈرون حملہ کیا ہے جس سے ملا منصور اختر کی ہلاکت ہوئی ہے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اگر میاں صاحب صحت مند ہوتے تو عوام کی جانب سے اس واقعہ پر سخت ردعمل دیکھنے کو ملتا اور عوام میاں صاحب کو مجبور کرتی کہ امریکہ کو باور کرایا جائے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اسکی حدود کی اس دیدہ دلیری سے خلاف ورزی قومی غیرت کے منافی ہے اور امریکہ کا یہ مذموم عمل نا قابل بر داشت ہے۔
چونکہ میاں صاحب کی صحت قابل رشک نہیں ہے اور وہ بیمار ہیں اس لیے وہ اس معاملے کو اس قدر مستعدی سے دیکھنے سے قاصر ہیں ہم دعا گو ہیںکہ میاں نواز شریف جلد سے جلد صحت یاب ہو کر عوام کی نگاہوںکے سامنے ہوں اور وہ امریکہ کی جانب سے کئے گئے ڈرون حملے کے تناظرمیں مناسب کاروائی کریں جس سے عوام کی تسلی ہو ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم آخرکب تک امریکی تسلط کے زیر اثر رہیں گے اور امریکہ ہماری خود مختاری سے یونہی کھیلتا رہے گا خدا سے دعا گو ہوں کہ اس وطن عزیز کو ایسا حکمران نصیب ہو جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے اور اسکا نصب العین پاکستان کی سالمیت خود مختاری اور خوشحالی ہو۔
تحریر : عبدالرزاق