تحریر: فہیم اختر
تھر میں زندگی کا سفر موت کی جانب گامزن ہے غذائی قلت بھی ہے اور بنیادی ضروریات بھی انسان سے دور ہے 4 سو فٹ کھدائی کے بعد زمین میں پانی کے آثار نمودار ہوتے ہیں جنہیں کھینچ کر نکالنے کے لئے اونٹ کی خدمات لی جاتی ہے طویل مشقت کے بعد 10 سے 12 لیٹر پانی حاصل ہوتا ہے جسے نہ صرف جانوروں کے ضروریات بلکہ پینے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے گزشتہ 3 سالوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے تھر قحط سالی میں گر گیا ہے آئے روز خبریں چلتی ہے کہ زندگی موت کے دروازے کو کھٹکھٹا رہی ہے۔
تھر میں آبی قلت کی وجہ سے زمین سوکھتی جارہی ہے جس تھر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر سبزہ اگے تو یہ زمین کشمیر کی خوبصورتی کو مات دیتی ہے آج اس زمین کے لوگ پانی کے گھونٹ گھونٹ کے لئے ترس رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اب تو پانی کی قلت کی مثال کے لئے لوگوں نے تھر کا نام لینا شروع کر دیا جبکہ اس سے قبل کربلا کا نام لیا جاتا رہا ہے اور کشمیر نظیر علاقہ آج قحط سالی میں ڈوب گیا ہے اور’بنجر ‘ہونے کا خوف پھیل گیا ہے ادھر تھر کی مائوں کے گود سے نومولود زندگی کی جنگ ہار رہے ہیں۔
ادھر ہمارے حکمران یہ قانون بنارہے ہیں کہ کس طریقے سے شوہر کو بیوی کے قبضے میں دیا جائے تھر میں قحط کی شدت نے تباہی مچاتے ہوئے اموات کی تعداد 250تک لادیا ہے لیکن ‘سائیں’نامی وزیراعلیٰ موت سے خوفزدہ افراد کو اپنا پروٹوکول دکھاتے ہوئے 95گاڑیوں سمیت وہاں پہنچ جاتا ہے تھر میں موت رقص کرے تو امدادی سامان اور ریلیف پہنچانے کے بجائے بار بار عدالتی کمیشن بٹھایا جا رہا ہے۔
بار بار تحلیل ہورہی ہے بات واضح ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ کریڈٹ کی جنگ ہے عدالتی کمیشن اس بات کی نشاندہی تو کرے گا کہ تھر میں بڑے پیمانے پر اموات کی زمہ دار کون ہے لیکن ضرورت اس سے قبل آئندہ اموات کو روکنا اور عوام کو سہولیات پہنچانا ہے اگر یہ کریڈٹ کی جنگ نہیں ہوتی تو دبئی سے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری یہ نہیں کہتا ہے کہ ‘اگر تھر میں ایک بچہ مرتا ہے تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ہے جبکہ گنگارام لاہور میں روز اموات ہوتی ہیں’ ۔ یہ ٹھیک ہے کہ تھر میں غذائی قلت ، آبی قلت ، الغرض روٹی ، کپڑا اور مکان کی شدید ضرورت ہے لیکن حکمرانوں کا ایسے موقع پر رویہ بذات خود ایک سوالیہ نشان بن کررہ گیا ہے اور حکومت خود یہی ضروریات عوام تک پہنچانے کے نام اور نعرے سے وجود میں آئی ہے۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ‘تھر ‘کو پورے ملک کے لئے ایک سہارا سمجھا جاتا ہے جس کے دامن میں خدا نے وہ صلاحیتیں اور قوتیں پوشیدہ رکھی ہیں کہ اگر حکومت زراتوجہ دے تو نہ صرف تھر بلکہ پورے ملک کا نقشہ بدل سکتے ہیں جس کی صحرائی مٹی میں 175بلین ٹن کوئلے کا زخیرہ موجود ہے جس سے نہ صرف ملکی بجلی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں بلکہ اس کو دیگر ممالک کو بھی بھیجا جاسکتا ہے اور جس تعداد میں بجلی بتائی جارہی ہے سندھ کے ریگستان میں موجود کوئلے سے آئندہ 5سو سالوں تک سالانہ 50ہزار میگاواٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے یا 10کروڑ بیرل ڈیزل اور لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے جو ملکی ضروریات کے تناسب سے بہت زیاد ہ ہیں معروف جوہری سیاستدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق تھر کے ریگستان میں پائی جانے والی کوئلے کو قدرت نے ایسا تحفظ دیا ہے کہ اسے کسی قسم کا ماحولیاتی تبدیلی کا اثر نہیں پڑے گا۔
غرض یہ کہ حقیقتاً تھر بنجر نہیں بلکہ مملکت خداد اد پاکستان کو بنجر ہونے سے بچانے کے لئے تھر اپنا کاندھا پیش کریگا لیکن تھر کے لوگوں کی حالت زار پر حکومت کی توجہ صفر سے بھی نیچے ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکمرانی کا آئیڈیل یقینا اسلامی حکمران ہی ہونگے جن حکمرانوں کی تقلید کرتے ہوئے غیر مسلم حکمرانوں نے بھی انقلابی اقدامات پیش کئے ہیں۔
خلیفة دوم حضرت عمر فاروق کا پروٹوکول تو ملاحظہ کیجئے 22لاکھ مربع میل رقبے کا اکلوتا حکمران ہے جبکہ سرکاری خزانے سے صرف 2جوڑاکپڑے جن میں سے ایک سردیوں کے لئے اور دوسرا گرمیوں کے لئے ، حج عمرے کا خرچ اور درمیانی درجے کی غذا جو اس وقت رعایا میں عام تھی۔حضرت عمر فاروق کے حکمرانی کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ 22لاکھ مربع میل طاقتور ریاست کے حکمران کے کرتے کے شانے کے قریب 4پیوند لگے ہوئے تھے اور پائجامے میں چمڑے کا پیوند لگایا ہوتا تھا ،سفر کے دوران خیمہ اور شامیانہ کا استعمال نہیں کرتے بلکہ درخت کے نیچے سائیبان ڈالتے ،کسی کی عیادت کو جاتے گلاب ہدیہ کرتے اور تنہائی میں خود کو کہتے رہتے کہ اللہ سے ڈرتے رہو ورنہ تم کو سخت عذاب دے گا۔
موازنہ کیجئے کہ 22لاکھ مربع میل کے طاقتورترین حکمران کے روزمرہ کے معاملات اور سرکاری پروٹوکول کو جبکہ ہمارے حکمران اس غریب ملک پر اپنے شاہانہ خرچوں کی وجہ سے خود ایک بوجھ بن گئے ہیں اور آج جب تھر میں لوگ بھوکے مررہے ہیں تو سوائے بیانات اور پوائنٹ سکورنگ کے کچھ نظر نہیں آرہا ہے جبکہ حقیقی حکمرانی کی مثال خلیفہ دوئم نے یو ں فرمایا کہ”اگر دریا ئے فرات کے کنارے کوئی بھوکا کتابھی مرگیا تو اس کا جوابدہ عمر(حاکم) ہو گا۔ میں پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کو آفرین پیش کرتا ہوں جنہوں نے حالات کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے ‘تھر بنجر نہیں’کے نام سے مہم شروع کی مہم اپنے زور و شور سے جاری ہے۔
پی ایف سی سی سے وابستہ اراکین و زمہ داران اپنے قلم اور سوشل میڈیا کے زریعے اس بات کی تبلیغ کررہے ہیں تاکہ ایک احساس جھاگ جائیں پی ایف سی سی کی مہم ایک ساتھ کراچی سے گلگت بلتستان تک شروع ہوئی ہے اور گلگت بلتستان (جو کہ تھر سے کم و بیش2ہزار کلومیٹر دور ہے )کے اخبارات تک یہ مہم اور آواز پہنچ گئی ہے خداوند کریم کا احسان ہے کہ یہ مہم کامیابی کے ساتھ جاری ہے تھر کے حالات کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کے لئے کالم نگاروں کا ایک وفد اس وقت تھر کے 3روزہ فیلڈٹرپ میں ہے اور تھر کے حقیقی حالات کو وہی ممبران خوب اٹھاسکتے ہیں دعاہے کہ ‘تھر’جس سے ملک کی معیشت کا مستقبل وابستہ ہے ‘بنجر’نہ ہوجائے اور پی ایف سی سی کی جانب سے تھر کو بچانے کے لئے ایک ماہ کی مہم احسن انداز میں تکمیل تک پہنچ جائے۔
تحریر: فہیم اختر