اسلام آباد: اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ بعض عدالتی فیصلے عالمی فورم پرلے جائے گئے جن کے باعث اربوں روپے ہرجانہ اداکرنا پڑا۔
سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ آج قائداعظم کی انہترویں برسی بھی ہے لہذا آج کے دن ہمیں محنت اورلگن سے کام کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔ آئین عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات کی حدبندی کرتا ہے، اٹارنی جنرل آف پاکستان نے مزید کہا کہ سیاسی مقدمات سپریم کورٹ میں لائے گئے اور فریقین کو اپیل کے حق کے بغیر چھوڑ دیاگیا جب کہ اس طرح کے مقدمات میں میڈیا کی اپنی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، امید ہے میڈیا عدالتی نظام کے متوازی عوامی عدالتی نظام میں تبدیل نہیں ہوگا۔بعض عدالتی فیصلے عالمی فورم پرلے جائے گئے جن کے باعث اربوں روپے ہرجانہ ادا کرنا پڑا،ہمیں ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ کرنا چاہیے، اس سے اداروں کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کوسمجھنے کاموقع مل سکتاہے۔
اس موقع پر پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین احسن بھون نے اپنے خطاب میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو عدالتی قتل کے نام سے جانا جاتا ہے،اس فیصلے سے ملک کی قسمت کے ساتھ کھیل کھیلا گیا، ضیاء الحق کی سیاسی اشرافیہ نے ہمیشہ ووٹ کے تقدس کو پامال کیا، سابق چیف جسٹس کے بیٹے کا مقدمہ تاریخ کی عدالت میں سوالیہ نشان ہے، جج صاحبان کی تعیناتی انتہائی بنیادی مسئلہ ہے، ججز کی تعیناتی میں شفافیت کا عمل مجروح ہوا ہے، مرضی اور پسند کے جج تعینات کیے جاتے ہیں، پاناما کیس کا فیصلہ سیاسی اشرافیہ کے خلاف بارش کا پہلا قطرہ ہے،چیف جسٹس نے ہمیشہ معاملہ فہمی قانون کی حکمرانی اور بنچ بار کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا، امید کرتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی انہی اصولوں کی پاسداری کریں گے۔ صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن رشید اے رضوی کا نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ فل کورٹ کا مقصد انصاف کے نظام کی بہتری اور قانون کی حکمرانی ہے، گزشتہ سال میں پرانے مقدمات میں کمی آئی، ملٹری ایجنسیوں کو سیاسی کیسز میں شامل کرنے سے فورسز اور عدالت پرانگلیاں اٹھتی ہیں۔