counter easy hit

کچرا انسان

ALLAH

ALLAH

تحریر: ابن نیاز
کبھی کبھی کچھ ایس حرکت کرتی ہوئی تصویریں سامنے آتی ہیں کہ انھیں دیکھ کر آنکھوں میں بے اختیار بے بسی کے آنسو امڈ آتے ہیں۔یہ اور بات کہ انھیں روکنے کے لیے ہنسنا پڑتا ہے۔ ایسی ہی ایک تصویرایک ایسی خوبصورت بچے کی دیکھنے کو ملی جسکی عمر آٹھ سے دس سال کے درمیان تھی۔مجھے یقین ہے کہ اللہ نے اگر اسے زندگی عطا کی اور تھوڑی سی صحت مند زندگی تو جوان ہو کر بہت سمارٹ اور شاندار شخصیت کا مالک نکلے گا (اللہ اسے نظرِ بد سے بچائے)۔ وہ بچہ ایک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر سے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ ایک تھیلا اسکے دوسرے ہاتھ میں تھا۔میرے قدم وہیں رک گئے اور نگاہیں اس پر جم گئیں۔غور سے دیکھا تو وہ ردی کے کاغذ تلاش کر رہا تھا۔ اور ایک ایک کاغذ چن کر اپنے تھیلے میں ڈالتا جا رہا تھا۔ اسنے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی لکڑی پکڑی ہوئی تھی، جس کی مدد سے وہ کچرے کو اِدھر اْدھر کر رہا تھا۔

میں کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور اپنی قوم کی بے حسی پر ماتم کرتا رہا۔ صوبہ پنجاب کے وزِ یر اعلٰی جو اپنے آپ کو خادم اعلٰی کہلاتے ہیں (شکر ہے پاک پروردِ گار کا کہ امیر المؤمنین کہلانے کا خیال نہیں آیا۔ ورنہ کیا ان سے کیا بعید تھا۔) نے اعلان کیا تھا کہ ہر بچے کو علم کے زیور سے آراستہ کریں گے۔ کوئی اپنے بچے سے مزدوری نہیں کرائے گا۔ شاید یہ ہر بچہ صرف بیوروکریٹس کا، ٹیکنو کریٹس کا یا پھر لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں پتی لوگوں کے ہوں گے۔ جناب وزِیر اعلٰی کی نظر میں ان سب لوگوں کے بچے برابر ہوں گے۔ لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ کبھی اس بچے کو اپنی گود میں اٹھا کر ، اسکے گالوں پر چوم کر کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر تصویر بنوانا گوارا نہیں کریں گے۔ کیا اس بچے کا حق نہیں بنتا کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرے، اچھا صاف ستھرا لباس زیب تن کرے۔لیکن نہیں۔ کیونکہ اسی طرح کے ایک بچے سے کبھی پوچھا تھا کہ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ اسکے ابو کا انتقال ہو گیا تھا۔ گھر میں کمانے والا کوئی نہیں۔ ماں دوسروں کے گھر برتن مانجتی ہے۔چونکہ گزارا نہیں ہوتا تو مجبوراً یہ ردی کے کاغذ ڈھونڈ کر، اور ڈھو کر بیچتا ہے، جس سے جو پیسے ملتے ہیں، ان سے کسی نہ کسی طرح دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔مجھے یہ فلمی ڈائیلاگ لگے تھے۔ تو میں نے تحقیق کی۔ واقعی میں ایسا ہی تھا۔اسکی بچے کی والدہ ہمارے ہی محلے کے ایک گھر میں بھی کام کرتی تھی۔مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ تو علاقے کے ایک مخیر اور درد مند دل رکھنے والے ایک شخص کو کہہ کر اس بچے کو اسکی والدہ سے اجازت لے کر سکول میں داخل کروایا۔اور اس شخص نے انجان رہتے ہوئے انکو ماہانہ اخراجات دینے کا وعدہ کیا۔

اس بچے کو دیکھتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے ماضی ایک دفعہ پھر گھوم گیا۔لیکن اس وقت علاقہ میرا اپنا تھا۔ لوگ جانے پہچانے تھے۔ اور یہاں کی تو صرف حکومت ہی کافی ہے ایسے بچوں کا مستقبل بچانے کیلئے، بشرطیکہ انکے دلوں میں خدا کا خوف ہو۔ اگر وہ ٹیکسی سکیم شروع کر سکتے ہیں تو کیا ایک بچے کے خاندان والوں کو ایک ٹیکسی کی قیمت نہیں دے سکتے۔ انکے لیے اکا?نٹ کھول کر وہاں فکس ڈپازٹ نہیں جمع کرا سکتے۔جس سے اسکے خاندان کو ماہانہ آمدنی ملتی رہے۔اس بچے کو سکول میں داخل کرا کر اسکو تعلیم دلوا سکتے ہیں، ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی سکھایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں۔سب ممکن ہے اگر کیا جائے۔

یہ تو صرف بچہ تھا۔ اس وقت میرے دل کی حالت کیا ہوئی ہو گی جب میں نے ایک چوبیس پچیس سالہ نوجوان کو بھی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے ردی چنتے ہوئے دیکھا۔ میرا تو دل کانپ کر رہ گیا۔ اسکی حالت پر غور کیا۔ کیونکہ اکثر اس طرح کے کام کرنے والے بڑی عمر کے لوگ نشہ کے شکار ہوتے ہیں۔ چونکہ گھر سے پیسے نہیں ملتے تو وہ ردی وغیر ڈھونڈ کر بیچتے ہیں اور جو رقم ملتی ہے، اس سے اپنا نشہ پورا کرتے ہیں۔اس نوجوان کو دیکھا تو اسکی حالت نشہ کرنے والوں جیسی نہیں تھی۔کپڑے بھی بہتر تھے۔ بال سلجھے ہوئی نہیں تو الجھے ہوئے بھی نہیں تھے۔ناخن بھی تراشے ہوئے تھے۔ مجھے حیرانگی ہوئی۔ اس نوجوان سے پوچھا کہ وہ کوئی اور محنت مزدوری کیوں نہیں کرتا۔کہنے لگا کہ پانچ چھ جگہ کرنے کی کوشش کی۔گاڑیوں کے مکینک کے پاس کام کیا۔ لیکن بے ایمانی مجھ سے ہوتی نہیں۔ اور مکینک استاد ہر گاڑی کے ایک نقص کو ٹھیک کرواتا تو کوئی اور نقص اس طرح چھوڑ دیتا کہ چار پانچ دنوں بعد گاڑی کو دوبارہ اسکے پاس واپس لانا پڑے۔ اور ہر بار اسطرح ہی کرتا۔میں نے بار بار منع کیا۔لیکن بجائے اسکے کہ وہ خود رکے، اس نے مجھے ہی کام سے نکال دیا۔ پھر ایک تندور پر کام کیا۔ وہاں پیڑے بنانے کا کام میرے ذمہ تھا۔ حکومت نے جو وزن مقرر کیا ہوا تھا، تندور کا مالک اس میں سے ہمیشہ دس پندرہ گرام کم تولتا۔ میرے احتجاج پر اس نے مجھے نکال باہر کیا۔

میں نے اس سے اسکی تعلیم پوچھی۔ جواب سن کر میں ششد رہ گیا۔اسنے بتایا کہ اس نے ایم اے کیا ہوا ہے۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ کوئی نوکری کیوں نہیں کرتا ، وہ ہنس پڑا۔کہنے لگا بھائی کیوں مذاق کرتے ہو۔بی۔اے کرنے کے بعد سے اب تک اگر ہزار نہیں تو چار پانچ سو انٹرویو ضرور دیے ہوں گے۔ لیکن اوپر والے کی مرضی کے آگے اپنی نہیں چلتی۔تو پھر کوئی پرائیویٹ نوکری ہی کر لیتے۔کی تھی ایک سکول میں ٹیچر کی نوکری کی تھی۔ لیکن چھ ماہ پڑھانے کے بعد ہی دل بھر گیا۔ کیوں؟ اسکی وجہ یہ تھی کہ سکول والوں کو اپنی آمدنی کی فکر تھی۔ یہ خیال نہیں تھا کہ بچوں کو صحیح پڑھایا جا رہا ہے یا نہیں۔جبکہ میری عادت تھی کہ ہر بچے کو انفرادی طور پر بھی پڑھاتا تھا اگر اسکو کسی چیز کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ میری کلاس کے دو تین بچوں کو چھوڑ کر باقی سارے بچے بہت اچھے اور محنتی تھے۔جب سالانہ امتحان ہوئے تو نتیجہ دیکھ کر بہت حیران اور پریشان ہوا۔ وہ بچے جو نالائق تھے ٹاپ ٹین میں تھے۔ اس نوجوان نے بتایا کہ پرنسپل سے جب پوچھا کہ یہ کیا تو کہنے لگا کہ ان بچوں کے والد سرکاری اداروں میں اعلٰی پوسٹوں پر ہیں۔اگر ہم انھیں فیل کر دیتے ( جس کے وہ واقعی حقدار تھے کہ ان کے جوابی پرچے تقریباً خالی ہی تھے) تو سکول بند ہونے کا خدشہ ہے۔ اس نوجوان نے، جس نے اپنا نام اکرم بتایا تھا، پرنسپل کو کہا کہ اس طرح تو انکا مستقبل خراب ہو جائے گا۔ تو پرنسپل مسکر ا کر بولے کہ ایک دفعہ یہ یہاں سے میٹرک کر جائیں، پھر انکے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں رہے گا۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے ایک دو اور ٹیچر ز سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ بھائی تنخوا ہ مل رہی ہے یہ ہی کافی ہے۔ باقی کیا ہوتا ہے، ہمارا کیا تعلق۔ میں نے سکول چھوڑ دیا۔ قارئین۔ آپ بتائیں، اس میں اس بچے کا کیا قصور ہے ؟ اس نوجوان کی کیا غلطی ہے؟

تحریر: ابن نیاز