تحریر : الیاس حامد
مغرب سے امپورٹڈ دیگر فتنوں کی طرح ”ویلنٹائن ڈے” یعنی یوم بے حیائی نے ہمارے مسلم معاشرے پر اس طرح شب خون مارا کہ نسل نو تباہ ہو کر رہ گئی۔ جدیدیت گزیدہ طبقہ اخلاقی اقدار کو تباہ کر دینے والے اس فتنے کو نہ جانے کس کس طرح مسلم معاشروں میں روا اور جائز رکھنے کی صورتیں نکالتا ہے۔ ان کی منطق سنیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ نجس اور آلودگی سے لت پت روش کی اس انداز سے تطہیر کی جاتی ہے کہ اچھے بھلے شریف اسلامی غیرت و حمیت کے حامل افراد بھی کہنا شروع ہو جاتے ہیں: لو جی آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ اس دن خاوند اپنی رفیقہ حیات سے اظہارِ مودت کر لے۔ بیٹا یا بیٹی اپنے ماں باپ سے الفت کو برملا بیان کرے۔ مقدس رشتے ایک دوسرے سے اپنائیت کے جذبے سے پیش آئیں۔ ان کو کوئی گفٹ، پھول یا دیگر ایسی چیز پیش کر دیں، اس میں کون سی قباحت والی بات ہے؟ کوئی مضائقہ تو نہیں نظر آتا، کیوں نہ ہم اس ویلنٹائن پر جائز محبت کا اظہار کریں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے جملے آپ کو سننے کو ملیں گے۔
یوں غیر دانستہ طور پر وہ لوگ بھی اس بے راہ روی کی روش کی حمایت کرتے نظر آئیں گے۔ اس طرح اس لعنت کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے بعد میڈیا وہ حتمی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے جس کے سامنے معاشرے کے وہ لوگ بھی شکست خوردہ نظر آتے ہیں جن سے مقابلے کی توقع تھی اور جن سے امید کی جاتی تھی کہ ان کے افکار نظریاتی، مشرقی اور اسلامی ہیں۔ ویلنٹائن کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ ان واقعات کی استنادی حیثیت کیسی ہے جو ویلنٹائن ڈے کے پس منظر میں بیان کئے جاتے ہیں۔ ان قصوں کہانیوں سے ہمیں مقصد نہیں ہونا چاہئے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ویلنٹائن کوئی پادری تھا جو کسی راہبہ (Nun) کی محبت میں گرفتار ہوا یا یہ یونانی محبت کی دیوی کا نام تھا۔ ہمیں اس بات پر غور و فکر کرنا چاہئے کہ ویلنٹائن ڈے کے نام پر ہماری نسل نو کس سمت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ا ن کے اخلاقیات کا جنازہ کس طرح نکل رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں اس قسم کی اباحیت کی کیونکر اجازت ہو سکتی ہے۔ ہمارے نوجوان کی نظر میں وہ حیا کس طرح مفقود ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ قوم کی بیٹی کے دل و دماغ میں عفت و عصمت اور پاکدامنی کے وہ جذبات کہاں غرق ہو گئے جو مسلم معاشرے کی پہچان اور اہل اسلام کا امتیاز ہوا کرتے تھے۔
افسوس صد افسوس کہ ہمارے یہ عفت مآب رویے مغرب کے طوفان بے حیائی میں خس و خاشاک کی مثل بہ گئے۔ نسل نو اپنی تہذیب کو فراموش کر کے یہود و نصاریٰ کی نقالی میں سرتاپا آلودہ ہوچکی، بہن، بیٹی اور ماں کے مقدس رشتوں کو پامال کر بیٹھی، اپنے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔یوں اس ایجنڈے کو پورا ہونے میں ہم ممدومعاون ثابت ہوئے جو دشمنان دین و ملت کی دیرینہ خواہش ہے اور جس کی طرف ہمارے خالق و مالک نے چودہ سو سال قبل متنبہ بھی کر دیا: ”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، تم نہیں جانتے”۔ (النور: 19)
مذکورہ آیت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فحاشی و عریانی اور بے حیائی کی اشاعت و تبلیغ کے وہ تمام ذرائع اور وسائل منع ہیں جن سے جنسی بے راہ روی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلتے ہیں۔شیطان اپنے پیروکاروں کیلئے ان امور کو مزین کر کے پیش کرتا ہے، برائی کو دلکش انداز سے ذہن میں جاگزیں کرتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ فرحت و شادمانی کا یہی سامان ہے۔ وہ انہی شادمانیوں کے اندر غرق ہو کر رہ جا تا ہے۔ یوں شیطان اپنے دام فریب میں لے لیتا ہے۔ ہماری قوم شیطان کے انہی فریبوں میں جکڑ چکی ہے۔ مغرب کی نقالی اور ذہنی غلامی کا یہ عالم ہے کہ ان اخلاق و اطوار کو رول ماڈل سمجھ بیٹھے ہیں۔ یوں ان کے ہر فعل کی پیروی کرتے ہیں اور اسے باعث افتخار تصور کیا جاتا ہے۔ روشن خیالی، وسیع القلبی اور ماڈرن ازم جیسی اصطلاحات کو مغرب کی تہذیب و تمدن کو اپنا لینے کیلئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ مغربی تہذیب کے داعی ایسی دلفریب اصطلاحات کا انطباق معاشرتی بے راہ روی پر کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں نفوذ کر چکی ہیں۔ ان نام نہاد روشن خیال سکالرز کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اہل مغرب کے نقش قدم پر اس ہنگامہ آرائی میں دیوانہ وار شامل ہو جائیں جسے وہ جدت پسندی کا نام دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ زہر ہلاہل اور سلو پوائزننگ ہے جو ہمیں اخلاقی موت کی طرف غیر محسوس انداز میں لے جا رہا ہے۔
چند سال قبل ویلنٹائن ڈے کا طوفان اتنا منہ زور نہیں تھا۔ ایک معمولی سا طبقہ جو دین بیزاری اور جنسی تلذذ کا مارا ہوا تھا وہی اسے اپناتا تھا۔ میڈیا نے اس کام کو اس قدر آسان اور عام کر دیا کہ ہر گھر میں اس کی شنوائی ہے۔ ہماری قوم کے ذہنی تخرب میں جتنا کردار میڈیا نے ادا کیا شاید اور کوئی ذریعہ نہ کر سکا۔ یوں اس طرح اس کام کو پذیرائی بخشی گئی اس سلسلے میں خاص ٹرانسمیشن کا اہتمام ہوتا ہے آن ایئر اپنے پیاروں کو پیغام جسے وش (Wish) کا نام دیا جاتا ہے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے، یوں پوری فیملی کے سامنے واہیات پیغامات سنے جا رہے ہوتے ہیں۔ اخبارات کے اندر اس سلسلے میں خاص اشاعت کی جاتی ہے۔ یوں اخلاق باختگی اور طوفان بے حیائی کو ”یوم محبت” جیسے نام سے منسوب کر کے اس دن کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔
14 فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے، اسلامی معاشرے میں اخلاقی اور معاشرتی دھجیاں اڑاتا ہوا یہ دن، اسلام کا درد رکھنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ والدین، علمائے کرام، اساتذئہ کرام کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کو اس دن کی حقیقت اور اس کے نقصان سے آگاہ کریں، اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کریں کہ وہ مغرب کے اس کلچر کو اپنانے کے بجائے اسلامی حیا اور عفت و عصمت کو اپنا شعار بنائیں۔ ویلنٹائن ڈے کو محبت Love سے منسوب کرنا انتہائی غلط ہے بلکہ یہ تو Lust بوالہوسی جنسی بے راہ روی ہے۔ محبت کا پاکیزہ تصور جو اسلام نے ہمیں دیا ہے، اس سے کوسوں دور ہے اور اس محبت کے لئے کسی دن کو خاص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ والدین کو اپنے بچوں سے ہفتے کے ساتوں دن محبت ہوتی ہے، میاں بیوی کا الفت بھرا رشتہ صرف ایک دن کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ اپنے پیاروں سے سال کے 365 دن محبت ہونا فطری عمل ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے نام پر جس محبت کا مغربی تصور ہے، اسلام اس کی گنجائش نہیں دیتا۔ یہ صرف گناہ ہے اور زنا کا دروازہ ہے اور اس دروازے کے قریب جانے سے بھی قرآن پاک ہمیں روکتا ہے۔ ارشاد ہے: ”تم زنا کے قریب بھی مت جائو، یقینا یہ بے حیائی اور نہایت برا راستہ ہے”۔ (بنی اسرائیل: 32) اسلام اپنے ہی راستے پر چلنے کا داعی ہے اور اس کے اندر ہی ہماری فلاح مضمر ہے۔
اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جائو گے
تحریر : الیاس حامد