کہتے ہیں جب بولنے اور سننے کو کچھ باقی نہ بچے تو پھر محض شور مچاتی آوازیں ہی باقی رہ جاتی ہیں. نہ سامعین میسر ہوتے ہیں اور نہ ہی بولنے والے. حرف و معنی کا ایک ایسا قحط پڑ جاتا ہے کہ بستی کے رہنے والے قحط حروف میں جینے کے عادی ہو جاتے ہیں.سماعتوں اور بینائیوں کو بے مطلب اور بے معنی باتیں اور الفاظ سننے اور دیکھنے کی عادت ہو جاتی ہے. یہ صورتحال جب معاشرے پر اثر انداز ہونے لگ جائے تو ہر گام اور ہر آن چیختے چلاتے “بونے” اپنے قبیلے کے دوسرے “بونوں” کو ساتھ ملا کر قوت سماعت اور قوت گویائی کے رکھنے کو ایک جرم قرار دے دیتے ہیں.یوں “بونوں” کے معاشرے میں سماعت اور گویائی کی نعمت سے مستفید انسانوں کو ان نعمتوں کا اہل ہونے اور دراز قد ہونے کے جرم میں ان دیکھی زنجیروں میں جکڑ دیاجاتا ہے. ان زنجیروں کے کئی روپ ہوتے ہیں کئی نام ہوتے ہیں اور ہر دراز قد انسان یا سماعت و بینائی کی نعمتوں سے مالا مال فرد کو اس کے قد کاٹھ کے مطابق یہ زنجیریں پہنا دی جاتی ہیں. یہ اور بات ہے کہ اکثر و بیشتر “بونے” اس حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ بونوں کی تیارکردہ زنجیریں افکار کی وسعتوں کو نہ تو کبھی قیدکرنے پائی ہیں اور نہ ہی قید کرنے پائیں گی.
مشہور نفسیات دان اور جدیدپراپیگینڈے کا بانی برنیز کہتا تھا کہ ہم لوگ ایک ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں رائے عامہ سے لیکر عام نفسیات تک کا بننا سب کچھ چند ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو رائے عامہ اور انسانی نفسیات کو اپنے حق میں استعمال کرنا جانتے ہیں .برنیز کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ عام طور پر انسانوں کی اکثریت کی زندگی کے اہم ترین فیصلے پہلے سے طے شدہ پراپیگنڈے کے تابع ہوتے ہیں. ہم کیاپہنیں گے، ہم کھانے کیلئے کونسی خوراک کا استعمال کریں گے ،ہم معیار زندگی کی کیا تعریف کریں گے، اور کیسے اس معیار زندگی کے حصول کیلئے درست یا غلط اقدامات اٹھائیں گے، ہم کن افراد کو اپنے نمائندوں یا رہنماؤں کے طور پر چنیں گے، یہ تمام فیصلے زیادہ تر انسان پہلے سے طے شدہ پراپیگینڈے کے تحت کرتے ہیں.
اپنی اس کہی ہوئی بات کو برنیز نے اپنی زندگی میں ہی متعدد بار سچ کر کے دکھایا.بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کی مصنوعات کو عام افراد کیلئے ایک ضرورت یا سٹیٹس سمبل بنانے سے لیکر مختلف ممالک میں حکومتوں کے بدلنے سے لیکر جنگ عظیم اور کولڈ وار کے پراپیگینڈے سے اس نے کڑوڑہا دماغوں کو متاثر کیا. دنیا میں زیادہ تر انسان اپنے بارے میں یا معاشرتی و نظریاتی رسوم و رواج کو خود سے دلیل و منطق کی کسوٹی سے پرکھنے یا سوچنے سمجھنے سے کتراتے ہیں جس کی بنیادی وجہ انکے اندر کا احساس تنہائی کا یا عدم تحفظ کا وہ خوف ہوتا ہے جس کے تحت زیادہ تر انسان آزادی کے اصل مفہوم سے ناآشنا رہتے ہوئے بونوں کی تیار کردہ زنجیروں میں مقید رہنے کو ہی زندگی تصور کرتے ہیں.اس بات کو مشہور امریکی نفسیات دان بی ایف سکینرز نے کچھ یوں بیان کیا تھا کہ معاشرہ افراد کی انفردیت کو آزادی کی نعمت چکھنے سے پہلے ہی ختم کردیتا ہے.
روایات رسوم و رواج ،نظریات افکار کو گھٹی کی صورت میں کچھ اس طرح انسانوں کو پلایا جاتا ہے کہ انسان آزادی کی نعمت کو زیادہ تر ایک بھیانک گناہ یا جرم تصور کرنے لگ جاتا ہے. سکینر کا یہ بھی ماننا اور کہنا تھا کہ دنیا میں بسنے والے زیادہ تر انسان آزادی خود سے فیصلے لینے کا رسک اٹھانے کے بجائے کسی بھی طاقتور فرد یا گروہ کے تابع رہنے کو پسند کرتے ہیں تا کہ ان کی روزمرہ کی ضروریات اور حاجات پوری ہو سکیں .دنیا میں انسانی رویوں پر تحقیق کرنے والے کسی بھی محقق کی تحقیقی یا تصنیف کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صاف عیاں ہوتی ہے کہ ہر دور میں عام انسانوں کی سوچ اور ان کے رویوں کو مخصوص ایجنڈے کے تابع کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا. اس مقصد کیلئے ایک طرف سیاست مذہب ،قومیت، رنگ، نسل ،وطن پرستی اسلاف پرستی جیسے بے بہا نظریات و خیالات کو مختلف اندازمیں استعمال کیا جاتا ہے اور دوسری جانب روزمرہ کی ایک طے شدہ روٹین بنا کر عام انسانوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہوئے انہیں ایک معیار زندگی کے تابع رکھا جاتا ہے. یہ مقاصد آج کے دور میں میڈیا کے ذریعے باآسانی حاصل کر لیئے جاتے ہیں.
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اورسوشل میڈیا کے زریعے اربوں افراد کے زہنوں کو تسلط میں لایا جاتا ہے.ہمارے بچوں کیلئے کونسا معیار تعلیم یا نظام تعلیم ضروری ہے یہ فیصلہ ہم خود نہیں کرتے ہم سے کروایا جاتاہے. ہم نے سیر و تفریح کرنے کہاں جانا ہے کیا کھانا ہے کیا پینا ہے یہ فیصلے ایڈورٹائزنگ کی مہربانی سے پہلے ہی طے شدہ ہوتے ہیں. ہم نے کونسی ملامت اختیار کرنی ہے کونسا کاروبار کرنا ہے زیادہ تر افراد کے یہ فیصلے بھی پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں جن کا دارومدار اس کے اردگرد کے ماحول میں قائم شدی “کنڑولڈ پراپیگینڈے”کی بنا پر ہوتا ہے.
ریاست کا نظام کیا ہو گا اس کو چلانے کیلئے جو نمائندے چنے جائیں گے یہ تمام فیصلے میڈیا کے زریعے تھوپے جاتے ہیں. یہاں تک کہ انسان کے پیدا ہوتے ہی اس کو رنگ مزہب زات اور قومیت کی جو شناخت ملتی ہے وہ بھی اس کی اپنی پسند یا اختیار سے نہیں ہوتی بلکہ دی جاتی ہے. البتہ جو انسان ان تمام قدغنوں اور اس تمام تر پراپیگینڈے اور ان دیکھی زنجیروں کے باوجود سوچنے سمجھنے کی جستجو کرتے ہیں ان کا معاملہ مختلف ہوتا ہے. لیکن ایسےافراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی ہے. دنیا میں عموما “بونوں ” کی اکثریت زیادہ پائی جاتی ہے. جبکہ ہمارا معاشرہ اس معاملے میں مثال کی حد تک خود کفیل ہے. کچھ بونے ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر بے ہنگم سا شور کرتے ہوئے زات پات رنگ نسل قومیت اور مزہب کا چورن بیچتے پائے جاتے ہیں تو کچھ کا منجن حکومتتوں کے آنے جانے کی تاریخیں دینے سے بکتا ہے.کچھ بونے وطن عزیز کو ہر آن خطرے کا شکار بتاتےہیں اورکچھ بونوں کا زور مزہب کو ہمہ وقت خطرے میں بتانے پر مصردکھای دیتا ہے.
کچھ بونے علم و ادب پر تسلط جمانے کے چکروں میں اذہان سے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں تو کچھ صحافیوں کے لبادوں میں چھپ کر یہ کھیل جاری رکھتے ہیں. کچھ بونے نظام کی تبدیلی کے نعرے مارتے دکھائی دیتے ہیں اور چند بونوں کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ موجودہ نظام یا حکومت سے بڑھ کر جنت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی. غرض ہرشعبے میں بیٹھے:”بونے” ایک عام آدمی کو چند مخصوص افراد کے پراپیگینڈے کا شکار کر کے اپنی اپنی جیبیں بھرتے رہتے ہیں. یہ معاملہ اگر صرف جیبیں بھرنے تک ہی محدود ہو تو زیادہ خطرہ نہیں لیکن اذہان سے کھیلنے کی یہ جنگ اور اس کے نتیجے میں اذہان کو تابع بنا کر اپنے اپنے وقتی مفادات کے حصول کی یہ جنگ وطن عـیز کے کڑوڑہا اذہان کو زمانہ جدید سے نہ تو مطابقت رکھنے دیتی ہے اورنہ ہی انہیں آزادی و خود مختاری سے زندگی بسر کرنے دیتی ہے. نتیجتا شدت پسندی، قحط الرجال، اور سوچنے سمجنے کی صلاحیتوں سےمتعلق عاری تحقیق و جستجو سے بے نیاز بونوں کی ان گنت فصلیں تیار ہوتی ہی رہتی ہیں. زندگی میں آزادی سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں ہوا کرتی اور آزادی ان افراد یا معاشروں کو ملتی پے جو ان تمام بیڑیوں کو توڑنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں اور رسک اٹھانے کو بھی تیار ہوتے ہیں. پراپیگینڈے کے تابع کسی بھی قسم کی نفرت تعصب یا قدغن میں زندگی بسر کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچئے گا کہ کہیں آپ بھی کسی بھی قسم کی ان دیکھی زنجیروں یا بیڑیوں میں قید ہو کر تو ایسا نہیں کر رہے.