لاہور: مسلم لیگ (ن) کے ’’عقابوں‘‘ نے کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے کا سخت جواب دلوا کر ایک ایسے وقت میں اپنے شیر وزیراعظم کو ایک مرتبہ پھر سے سول ملٹری سرد جنگ کی راہ پرگامزن کردیا ہے جب کہ آئندہ چند روز میں پاک فوج کے سربراہ اہم ترین دورہ امریکا پر روانہ ہونے والے ہیں۔
محمود خان اچکزئی کی تقریر اور حکومتی ترجمان کے جواب کے بعد معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اہم امر یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم کی بھاری اکثریت پاک فوج کی جانب سے حکومت کی گورننس کے بارے میں دیئے گئے بیان پر متفق ہے اور وہ حکومت کی پالیسیوں اور ترجیحات سے شدید نالاں ہے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ کا اجلاس بلائے مگر وزیراعظم نواز شریف غالباً یہ بھول رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے دھرنے کے نتیجے میں ان کی حکومت کو گرنے سے بچانے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کہیں زیادہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کردار تھا جنھوں نے اپنے ادارے کے اندرونی دباؤ سے لے کر عوامی دبائو تک سب کچھ برداشت کیا لیکن حکومت کو سنبھلنے کا ایک موقع مزید فراہم کردیا۔
سانحہ پشاور کے بعد پاک فوج نے حکومت پر واضح کردیا تھا کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج کے ساتھ ساتھ سول اداروں کو بھی بھرپور کردار نبھانا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان میں سول اور فوجی قیادت کے مابین یہ طے ہوا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لانگ ٹرم اقدامات کیے جائیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کی سب سے بنیادی پالیسی یہ مقرر کی گئی تھی کہ نیب (قومی احتساب بیورو) کو خودمختاری کے ساتھ موثر کام کرنا ہوگا کیونکہ دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کی بھاری رقوم کا کرپشن سے براہ راست تعلق ہے۔
وفاقی حکومت نے اس معاملے میں بھی وہ دلچسپی ظاہر نہیں کی جس کی توقع پاک فوج کو تھی اور انھوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔سندھ اور خیبر پختونخوا میں تو چند ایک کیسز پر کام کیا گیا مگر پنجاب میں آج تک نیب کو متحرک نہیں ہونے دیا گیا حالانکہ کالعدم تحریک طالبان اور کالعدم لشکر جھنگوی کے اکثریتی مالی اور افرادی وسائل پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں نیب کو اس لیے بھی آگے نہیں بڑھنے دیا جارہا کیونکہ پنجاب میں توانائی اور ٹرانسپورٹیشن کے میگا منصوبوں میں ہونے والی کرپشن پکڑے جانے کا خوف ہے اور یہ خطرہ بھی منڈلا رہا ہے کہ نیب کی زد میں حکمراں جماعت کے اہم ترین رہنمائوں سمیت وفاقی وصوبائی وزرا اور حکومتی عہدیدار بھی آسکتے ہیں۔
فاٹا کا معاملہ بھی سول ا ور فوجی قیادت کے درمیان تنازع کا اہم نکتہ ہے۔ پاک فوج کا موقف ہے کہ فاٹا کے اندر کامیاب ملٹری آپریشنز کے ذریعے ہم اپنے حصے کا کام تو کر رہے ہیں لیکن سول حکومت نے اس معاملے میں اپنی ذمے داری احسن طریقے سے بروقت ادا نہیں کی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس اصلاحات بھی ہونا تھیں لیکن آج تک یہ معاملہ بھی کھٹائی کا شکار ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں فوج کے اصرار پر یہ بھی طے پایا تھا کہ چاروں صوبوں میں ترقیاتی منصوبوں کو بڑھایا جائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام تر ڈیولپمنٹ پنجاب میں ہو رہی ہے اور اس کا بہت بڑا حصہ سڑکوں، میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین پر خرچ کیا جا رہا ہے جس سے نیشنل ایکشن پلان کے درکار مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنائی گئی ایپکس کمیٹیوں میں ہونے والے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہورہا ہے جس پر فوج کو شدید تشویش ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ ایپکس کمیٹیاں عضو معطل بن کر رہ گئی ہیں۔ پاک فوج کے بیان میں جے آئی ٹی انکوائریوں میں تاخیر کا ذکر کیا گیا تھا جو درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ کراچی میں ڈاکٹر عاصم کی کمزور جے آئی ٹی بنا کر اسے بھی طوالت کا شکار کردیا گیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کا سخت جواب دینے کی مخالفت کی تھی مگر ’’عقابوں‘‘ کا موقف تھا کہ آرمی چیف آئندہ چند روز میں امریکا کے دورے۷ پر روانہ ہونے والے ہیں اس لیے اگر حکومت نے سخت جواب نہیں دیا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ناکامی کا ذمے دار سمجھے گی۔