تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
زلزلوں کی وجہ سے جہاں جانی مالی نقصان ہوتا ہے وہاں ایک سبق بھی ملتا ہے، ہم نے زلزلوں سمیت تمام قدرتی آفتوں کا سامنا تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر قدرتی مصیبتوں، تکلیفوں اور آفتوں سے نمٹ نے کئے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں اپناتے، بس زلزلے کے جھٹکوں کو موت کا بپروانہ سمجھ کر زلزلے کے وقت سے دو چار منٹ کے لئے اللہ اور اللہ کے رسول ۖ کو یاد کرتے ہیں پھر جب کچھ سکون ہو جاتا ہے تو دنیاوی کاموں میں مگن ہو کر سب کچھ بھول جاتے ہیں، دنیا کی تاریخ؛ بالخصوص تباہ شدہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے جو کچھ بتایا ہے وہ حقائق کسی بھی صورت نظر ِ انداز نہیں کئے جا سکتے زلزلے آنے کی وجوہات بہت سی ہیں جیسا کہ زمین کی پلیٹیں ہلتی ہیں تو زلزلہ آتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ کے اندر زلزلہ آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاؤں کی معافی مانگو۔بخاری شریف کی روائت کے مطابق، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ علم اٹھالیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہو جائے۔ (بخاری، رقم:٦٣٠١) اُم المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں: جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ (الجواب الکافی لابن القیم،ص:٧٤)
پچھلے دنوں میرے کزن محمد اکرام الحق مرزا کا فرانس سے فون آیا۔ فون سنتے سنتے پاؤں سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہونے لگی جب اس نے یہ بتایا کے اب پاکستانی مسلمان لڑکے فرانس اور یورپ کی قومیت حاصل کرنے کے لئے لڑکے لڑکے کے ساتھ اور لڑکی لڑکی کے ساتھ شادی نام پر ہم جنس پرستی کے مرتب ہو کر اللہ اور اللہ کے پیارے حبیب ۖ کو ناراض کر رہے ہیں ۔ہم جنس پرستی شادی قوانین کے تحت دھڑا دھڑ روشن مستقبل کے لئے خدا کے عزاب کو دعوت دے رہے ہیں۔
بس فون تو بند ہو گیا مگر ! کیا ایک کامل ایمان شخص اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ زلزلے علاماتِ قیامت میں سے نہیں ہیں؟ اِسلام نے جہاں ایک طرف زلزلے کے اسباب بتائے، وہیں دوسری طرف اُس کا معقول اور مطمئن حل بھی بتایا ہے تباہ شدہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان نے کتنی بھی ترقی کرلی، کیسی بھی مشین ایجاد کرلی، کتنی ہی مضبوط عمارتیں بنا لیں، اڑنے کے سامان بنالیے، کمپیوٹر ایجاد کر لیے، چاند پر کمندیں ڈال آئے، مسافت سمیٹ کر دنیا کو ایک آنگن بنا دیا۔
سردی میں مصنوعی گرمی اور گرمی میں مصنوعی سردی کے اسباب مہیا کرلیے اور ترقی کے سارے رکار ڈتوڑ ڈالے؛ لیکن انسان اپنی اوقات یاد رکھو، اپنی تخلیق کا مقصد یاد رکھو، اپنے مالک وخالق سے لا تعلق مت ہوجاؤ اس کی مرضیات ونا مرضیات کو پہچانو، دنیا وآخرت کا فرق سمجھو، حیات وما بعد الحیات کا راز جانو، اور یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھو کہ تم سے بڑھ کر بھی کوئی ذات ہے، جس کی قدرت وعظمت اور قہاریت وجباریت کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے؛ چناں (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:٤٣٣٨ فی الصلا? فی الزلزلہ) دوسری بات یہ کہ اسلام نے دنیاکو یہ حقیقت بھی سمجھائی ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا۔
جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی، ایک ایسا دن آئے گا جب مفسا نفسی کا ایسا عالم ہوگا کہ باپ کو بیٹے کی فکر نہیں ہو گئی ماں کو دودھ پیتے بچے یاد نہیں ہونگئے ، سورج سوا نیزے پر ہو گا، پچاس ہزار سال کا ایک دن ہوگا اور وہ دن قیامت کا ہوگا۔یہ زلزلے انسان کواُسی قیامت کی یاد دلاتے ہیں کہ ابھی تو تھوڑی سی زمین ہلادی گئی ہے تو یہ حال ہے، جب قیامت کا زلزلہ آئے گا تو تمہارا کیا حال ہوگا۔
لہذا وقت سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال درست کرلو؛؛ ابن قیم نے اپنی کتاب میں حضرت عمر بن عبد ا لعزیز ?کا ایک خط نقل کیا ہے، جو زلزلے کے موقع سے انھوں نے حکومت کے لوگوں کو لکھا تھا کہ اگر زلزلہ پیش آئے تو جان لو یہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں؛ لہذا تم صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو۔ (الجواف الکافی،ص:٧٤) لواطت جیسی غیرفطری حرکت کرنے والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ لعنت بھیجی اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قوم لوط کا عمل کرے۔(مسند أحمد: 4/326)اور ان کے انجام کے بارے میں فرمایا کہ : جب کسی شخص کو دیکھو کہ قوم لوط کر رہا ہے تو یہ عمل کرنے والے اور جس کے ساتھ کیا جارہا ہے دونوں کو قتل کردو۔کیوں کہ یہ دین تو درکنار فطرت سے انحراف ہے، اسی لیے جانور بھی ایسا کام نہیں کرتے،بہر کیف یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔
اسی طرح جب موسی علیہ السلام کے زمانے میں فرعون نے ظلم کی انتہا کر کے رب ہونے کا دعوی کر بیٹھا تو اللہ تعالی نے مختلف انداز میں اسے الٹی میٹم دیا، طوفان بھیج کر، ٹڈی کے ذریعہ جو ان کے غلو اور فصلوں کوکھا کر چٹ کر جاتیں، جوئیں جو ان کے جسم، کپڑے اور بالوں میں ہو جاتی تھیں، ہر جگہ اور ہر طرف مینڈک ہی مینڈک ہو گیے جس نے ان کا کھانا،پینا،سونااور آرام کرنا حرام ہوگیا،اسی طرح پانی خون بن جایا کرتا تھا،لیکن ان کے دلوں میں جو رعونت اور دماغوں میں جو تکبر تھا،وہ حق کی راہ میں ان کے لیے زنجیرپا بنا رہا اور اپنی بڑی نشانیوں کے باوجود ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوئے بالآخر اللہ تعالی نے اسے پورے لشکر سمیت ایک صبح دریائے قلزم میں غرق کر دیا۔
قرآن نے کہا: ”آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا” دیتے ہیں کہ بس بہت ہو چکا اب سنبھل جاؤ،گناہوں سے باز آجاؤ۔ اگر ہم بحثیت قوم اپنا تجزیہ کریں ہر وہ برائی جو گزشتہ اقوام کی تباہی و بربادی کا سبب تھی وہ آج ہم میں پیدا ہو چکی ہیں۔
یورپ اور فرانس میں پاکستانی مسلمان قوم ِ لوط کی برائی کے علاوہ ایسے ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں جو روپے اور پیسے کے لئے حقیقی میاں بیوی ہونے کے باوجود وہاں کی حکومت کو لکھ کر دیا ہے کہ ہم جدا ہو چکے ہیں ( طلاق یافتہ ) ہیں، میری آخر میں اتنی سی گزارش ہیں جو ہمارے مسلمان بھائی بہنیں دیار غیر میں روزگار کے سلسلے میں وہاں مقیم ہیں۔
بہتر مستقبل کے لئے محنت کریں، مگر اسلام کا چہرہ نہ بگاڑیں کیونکہ دولت شہر ت اور عزت اللہ کے ہاتھ میں یہودیوں اور عسائیوں کے پاسپورٹوںمیں نہیں، اور اسلام کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوںکہ اللہ تعالیٰ کی زات کا پسندیدہ دینِ اسلام ہیں اور جس کو اللہ پاک پسند کرلیں اُس کا اللہ پاک کی مخلوق کیا بگاڑ سکتی ہیں۔
پاکستان میں مقیم خاندان جن کے چشم و چراغ بہتر مستقبل کے لئے یورپ افریقہ یا امریکہ گئے ہوئے ہیں ان سے گزارش ہیں اپنے اپنے عزیزواقارب جو بیروں ممالک ہیں ان کو یہ بات باور کروانا ہماری زمہ داری ہیں کہ ہر وہ کام جو انسانیت اور اسلام کے خلاف ہیں وہ نہ کریں۔ اگر جوا شراب زنا اور قوم لوط کی پیروی ہم نے نہ چھوڑی تو وہ دن دور نہیں جب ہم نست و نمود ہو جائیں گئے، اور پھر ہماری داستان تک نہ ہوگئی داستانوں میں والہ قصہ بن جائے گا۔
تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا