دوسری جنگ عظیم 1939ء تا 1945ء کے بعد جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا مشرقی جرمنی پر روس کا کنٹرول تھا جبکہ مفربی جرمنی امریکا, برطانیہ اور فرانس کے زیر اثر آچکا تھا۔ ایک جرمن قوم دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی اور ان کے درمیان دیوار برلن کھڑی کردی گئی تھی
جرمن قوم شکست و ریخت کے زخموں سے لہولہان تھی اور جنگ کے نتیجے میں شہر شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے تھے۔ پھر ان مصائب زدہ حالات میں ایک ایسی بے لوث قیادت ابھری جس نے جرمن قوم کی ڈوبتی کشتی کو حالات کے بھنور سے نکال کر نہ صرف کنارے لگایا بلکہ جرمن قوم کا کھویا ہوا وقار بھی بحال کیا۔ اس شخصیت کا نام تھا ہیلمٹ کوہل۔
ہیلمٹ کوہل 1982ء میں مغربی جرمنی کا چانسلر منتخب ہوا۔ جن لوگوں کو دیوار برلن کے ٹوٹنے اور مشرقی و مغربی جرمنی کے اتحاد کے تاریخ ساز لمحات یاد ہیں وہ یقینا ہیلمٹ کوہل کے نام سے بھی بخوبی واقف ہوں گے۔ ہیلمٹ کوہل نے دوسری جنگ عظیم کے زخموں سے چور جرمن قوم کے اتحاد کیلئے انتھک کوششیں کیں جن کی وجہ سے بظاہر ناممکن نظر آنے والا مشرقی اور مغربی جرمنی کا تاریخی اتحاد ممکن ہوا اور جرمن قوم میں موجود نظریاتی اور جغرافیائی اختلافات زمیں بوس ہوگئے۔
ہیلمٹ کوہل کو مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کا آرکیٹیکٹ کہا جاتا ہے۔ کوہل کے نزدیک جرمن قوم کا دوبارہ عروج اس کے باہمی اتحاد میں ہی مضمر تھا۔ دیوار برلن کے دو جانب تقسیم شدہ جرمن عوام اپنے پیاروں اور رشتے داروں سے ملنے کیلئے سسکتے رہتے تھے۔ نو نومبر 1989ء کو عوام کا ایک سیلاب دیوار برلن کو بہا لے گیا۔ جرمن عوام نے دیوانہ وار اس سرحدی رکاوٹ کو لوہے کے بھاری ہتھوڑوں سے چکنا چور کرڈالا۔
مشرقی اور جرمنی کے انضمام کیلئے ان عالمی قوتوں کو رضامند کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ یہ ہیلمٹ کوہل کی ہی جادوئی شخصیت کا سحر تھا جس نے اس وقت کے روسی صدر میخائل گورباچوف کو جرمنی کے اتحاد پر اعتراضات ختم کرنے پر رضامند کیا۔ اسی طرح کوہل کی سفارت کاری کی بدولت برطانیہ، فرانس اور امریکا بھی جرمنی کے انضمام پر راضی ہوگئے۔
کوہل نے منقسم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو اپنی منزل بنا کر اس کے اتحاد کے لیے کوشش کی تھی اور تین اکتوبر 1990ء کے روز انہوں نے یہ منزل حاصل کر لی تھی۔ جی ہاں تین اکتوبر 1990 کو مشترقی اور مغربی جرمنی کا انضمام ہوگیا۔ ہیلمٹ کوہل کو جرمنی کی سیاسی تاریخ میں سب سے طویل عرصے 1982ء سے 1998ء یعنی 16 سال تک چانسلر رہینے کا اعزاز حاصل ہے۔ جرمن عوام نے کوہل کو مسلسل 4 بار چانسلر منتخب کیا۔ جرمن قوم نے اسے بابائے جرمنی کا خطاب دیا کیونکہ ہیلمٹ کوہل نے دوسری جنگ عظیم کی خاک سمیٹتے ہوئے پسماندہ جرمنی کو ایک مضبوط اور جدید ترقی یافتہ و جمہوری ملک بنانے کی بنیاد ڈالی تھی۔
ہیلمٹ کوہل دنیا کے ان چند حکمرانوں میں سے ایک ہے جس کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں حکومت نے اس کی زندگی میں ہی یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ ہیلمٹ کوہل نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ کے تمام ممالک کے درمیان اتحاد پیدا کرنے والا حکمران کہلاتا تھا اس نے فرانسیسی صدر فرانسو متراں کے ساتھ مل کر یورپ کی مشترکہ کرنسی یورو متعارف کرائی۔ کوہل کے ان ہی کارناموں نے انہیں پورے یورپ میں ایک ہردلعزیز شخصیت بنادیا تھا اور انہیں یورپ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ ہیلمٹ کوہل کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کے سربراہ تھے۔
دوران حکمرانی کوہل کا دامن ہرطرح کے الزامات سے پاک رہا لیکن بعدازاں 1999ء میں انہیں ایک کرپشن اسکینڈل نے آگھیرا۔ ان کی پارٹی سی ڈی یو پر الزام تھا کہ اس نے کوہل کی سربراہی میں 1993ء سے 1998ء تک مشکوک زرائع سے تقریباً 1 ملین ڈالر کے فنڈز وصول کئے۔ کوہل کڑی تنقید کی زد میں آئے تو پارٹی کی اعزازی چیئرمین شپ سے مستعفیٰ ہوگئے۔
کوہل کی عظیم خدمات کے باوجود قانون نے ان سے کوئی رعایت نہ بخشی۔ کوہل کے خلاف کرمنل انویسٹی گیشن شروع ہوئیں اور انہوں نے بدنامی کا داغ دھونے کیلئے 1 لاکھ 42 ہزار ڈالر ادا کئے جس کیلئے انہیں اپنا گھر گروی رکھنا پڑا۔ ہیلمٹ کوہل نے نہ صرف اپنی پارٹی سے ہونے والی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے ہوئے ہرجانہ بھی ادا کیا۔ 16 جون 2017 کو جرمنی کی اس ہردلعزیز سیاسی شخصیت کا انتقال ہوگیا۔
یہ ہیلمٹ کوہل کی ہی پالیسیوں کا تسلسل ہے کہ آج جرمنی یورپ کی سب سے مضبوط اقتصادی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہترین ممالک کی عالمی فہرست سال 2018 ء میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ہیلمٹ کوہل کو موجودہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا سیاسی استاد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کوہل کی کابینہ میں پہلی بار وزیر بنیں تھیں۔ شاید اسی سیاسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ اب مارکل حکومت نے 5 کروڑ یورو کی خطیر رقم پاناما پیپرز کی ٹیکس چوری سے متعلق دستاویزات حاصل کرنے کے لیے ادا کی تاکہ ملک میں بدعنوان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاسکے۔
یہ جرمن حکمران طبقہ کے شفاف طرز حکمرانی کا ہی اثر ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو شکست خوردہ جرمن قوم پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے آج وہی قوم دنیا بھر سے آئے ایک کروڑ مہاجرین کو اپنی میزبانی کے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔