تحریر : سید نثار احمد
انگریزی پڑھ لینا اور مغربی علوم حاصل کر لینا گویا کہ روشنی پا جانا تصور کر لیا جارہا ہے۔ جب کہ مادری زبان میں درس و تدریس ہی کو بہتر سمجھا جاتا ہے اور کائنات کے مطالعہ میں تدریس مادری زبان کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔
اردو لکھنا پڑھنایوں تصور کیا جاتا ہے کہ اردو سے شعر و شاعری آگئی، شعر و شاعری پیٹ کہاں بھرتی ہے ”۔ گو یا کہ انگریزی ہی ان کا پیٹ بھر رہی ہے اور خوب بھر رہی ہے۔ ہاں انگریزی پڑھنے سے گریز نہیں ہے مگر، صرف انگریزی ہی سب کچھ ہے یہ زاویہ نظر درست نہیں ہے۔ جدید دور میں مغربی غلبہ یوں ہے کہ تمام تجارتیں Insurance System, Banking Systemاور بین الاقوامی تجارتیں روبہ عمل لانے کیلئے، ان کے تخلیق کاروں کی زبان کو سیکھنا ضروری ہے ، اور یہ تجارتیں، Insurance, Banking، شیئر بازار ، اسلح فروشی، جدید جنگی نظام، میزائل سسٹم ، کمپیوٹر تکنولوجی، وغیرہ سب یا تو انگریزی علوم یا مغربی علوم و فنون سے جڑے ہوئے ہیں۔
مشرقی تعلیم پائی اور گنگا ہو گیا
مغربی تعلیم پائی اور ننگا ہو گیا
اور دیکھنا یہ ہے کہ ان تجارتوں میں فطری توازنات کہاں تک موجود ہیں۔ Banking: یہ نظام تو ایسا نظام ہے جو سرمایہ کاری کو بڑھاوا دیتا ہے ، سودی نظام (ربائ) کومرکوزاً مرتب کرتا ہے۔ یہ دونوں غیر فطری عوامل ہیں، یہ دونوں نظاموں کو ترقی کا ضامن ٹہراکر عوام پر زبردستی سے تھوپا گیا، اور مغرور اور حریص سرمایہ کاراور مجبور اور ضرورت مند عوام اس کے عادی بن گئے اور بنتے جارہے ہیں۔ جو اس نظام سے معترض ہیں یا تو الگ تھلگ جی لیتے ہیں یاغیر سرمایہ اور غربت کی وجہ سے چپ چاپ زندگی کاٹ لیتے ہیں۔جدید دور اِس زندگی کو غربت کہتا ہے، اسلامی نظریہ اس کو تقویٰ کہتا ہے۔ اور ٹھیک سے دیکھا جائے تو یہی لوگ زیادہ سکون اور زیادہ چین کی زندگی گذار رہے ہیں۔ انسان یہ بھول گیا ہے کہ جہاں سود جنم لیتا ہے وہاں انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔
انسورینس: ایک بد نظامی کو دور کرنے کے لیے ایک اور بد نظام کو شروع اور نافظ کرنا فطرت سے تصادم کے مترادف ہے۔ انسورینس کا اہم مقصد ہے بچت اور حادثوں پر وظیفے۔ جو بھی انسورینس سسٹم میں اپناپیسہ لگاتا ہے اُس کو سوچنا چاہئے کہ اُس کا پیسہ کہاں لگایا جارہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ انسورینس میں لگایا ہوا پیسہ لونس Loans کے روپ میں دوبارہ عوام میں آتا ہے جس کا سود یعنی Interest ادا کرنا پڑتا ہے۔ گھما پھرا کر یہ تمام نظام سود پر منحصر ہیں ۔ یہ نظام چلانے والے جتنے بھی کارپوریشنز ہیں بالکل کمزور ادارے ہیں ان کو تجارت کرنے نہیں آتا اور یہ لوگو ں کے جائدادوں کو یرغمال یا گرو یا امانت پر رکھ لیتے ہیں، تمام دستاویز تیار کرتے ہیں بعد میں سود پر رقم دیتے ہیں۔ کمزور انسان کو یہاں پیسہ ہی نہیں ملتا اگر ملتا بھی ہے تو بڑی جد و جہد کے بعد۔ اگر وہ وقت پہ سود ادا نہیں کیا سمجھو کہ اپنی جائداد کھویا۔ اور یہ بھی احساس نہیں کہ انسورینس کرنے والا مرنا نہیں چاہتا، پھر بھی مرنے کے خوف سے انسورینس بھرتا ہے۔ ٹھیک یہی خوف انسورینس کمپنیوں کا سرمایہ ہے۔ لوگ جتنا ڈریں اتنا فائدہ۔ ایک لاکھ انسورینس کرنے والے افراد میں ایک بھی مرتا نہیں، تو پھر ادا کرنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے۔ ٹھیک یہی عنصر انسورینس کمپنیوں کی تجوریاں بھرتا ہے۔
کفاعت شعاری کے فطری عمل سے دور ہوکرآدمی غیر فطری انسوریسن کے عمل میں آجاتا ہے، جو کہ لاٹری سسٹم سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ایک با شعور انسان ہو کر سوچئے کہ ایک آدمی 100روپئے کے پریمیمPremium سے ایک سال تک دو لاکھ روپئے کا انسورینس کیسے پاسکتا ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں بچ بچ کے چلتا ہے اور ہر حادثے سے اپنے آپ کو بچ بچا کر چلتا ہے۔ پھر بھی اس انسورینس کے پریمیم کو بھرتا ہے، اس گمان سے کہ حادثات ناگہانی ہیں، اگر مجھے کچھ ہو گیا تو کون میرے یا میرے اہل و ایال کے کام آئے گا؟ جب کہ یہ لالچی ہے اور بے ایمان بھی۔ سب سے بڑھ کر غیر کفاعت شعار ہے اور کاہل بھی، اپنی بیماری پہ دوسروں کے پیسے لگانا چاہتا ہے، وہ بھی اُن کے جن کو وہ جانتا ہی نہیںجو ٹھیک اسی کی طرح کے لوگ ہیں جو پریمیم ادا کرتے ہیں۔ یہاں پر تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک ذمہ دار حکومت ایسے غیر ذمہ دار نظام کو کیسے نافذ کرسکتی ہے؟ یہاں پر سچائی تو یہ ہے کہ یہ غیر ذمہ دار نظام کی تیاری ایسے غیر ذمہ دار اور جاہل رہنما کرتے ہیں جن کو اپنے ملک اپنے کلچر اور فطرت کے پاک و صاف نظام سے کوئی پاس نہیں، بس ان کا کام یہی ہوتا ہے کہ مغرب کے نقشِ قدم پر چلو، غیر فطری عوامل کو اپنی حکومت میں پیوست کردو، جو دیکھنے میں بھلے لگتے ہیں عارضی طور پر نفع بخش نظر تو ضرور آتے ہیں لیکن ان کی مدت عارضہ ہے اور جب اس کھوکھلے نظام کی دیواریں ڈھیر ہوجائیں گی تو اس کا خمیازہ ملک کو دنیا کی معصوم عوام کو اور تاریخ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ مغربی اور ترقی یافتہ ممالک کی کرتوتوں کی وجہ سے زمین حارّہ یعنی گرم ہوگئی جس کو Global Warming کہتے ہیںاور اس کا خمیازہ ساری دنیا کے غریب ممالک کو معصوم عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
جیسے اُس نے گناہ کیا تو سزا ہم کو کیوں مِلے؟ ان تمام مغربی چیزوں کے سیکھنے اور عمل کرنے کے لئے مغربی زبانوں اور علوم کے علاوہ کوئی راستہ اور چارہ نہیں۔ ہندی اردو عربی سنسکرت اور دیگر ہندوستانی علاقائی زبانوں میں یہ غیر فطری کلمات کو کوئی جگہ نہیں۔ یہ غیر فطری تجارت اور تجاویزِ تجارت کی رنگا رنگی کو دیکھ کر حکومتیں اپنے ممالک کو دورِ حاضر سے مطابقت پیدا کرنے یہ عوامل شروع کردیتی ہیں۔ انگریزی زبان مغربی علوم مغربی تجارتیں سیکھنے اور سکھانے کی مہمیں چلائی گئیں ۔ اور ان کے ترجمے مقامی زبانوں میں ہونے لگے اور یہاں تک یہ تجارتیں پہنچ گئیں کہ ہر آفس میں داخل ہوتے ہی ایک حسین وجمیل ماڈرن ماڈل لڑکی جس کا اخلاقی و کلچر کے اعتبار سے میعاری ہونا ضروری نہیں ، Receptionist کے روپ میں نظر آنے لگ گئیں۔
ان تجارتوں میں Telecommunication ، مارکیٹنگ بھی داخل ہوگئے۔ ان سرمایہ داروں کا یہ حال ہوگیا کہ لڑکیوں کو آگے رکھ کر تجارت کرنے لگ گئے۔ یوں سمجھو کہ لوٹنے لگ گئے۔ Cell Phone سرویس دینے والی جتنی بھی کمپنیاں ہیں اُن سب کمپنیوں میں سرمایہ دار اور ٹھیکے دار چھپے رہتے ہیں اور Executive اور مارکیٹنگ اور ٹیلی فوننگ پر لڑکیوں کو بٹھاتے ہیں اور ان کی بدولت تجارت کرتے ہیں۔ یہ مغربی ڈھنگ آج انسان کو کہاں لے جارہا ہے کچھ پتہ نہیں۔ لیکن صاف نظر آتا ہے کہ یہ رنگ اخلاقیات کو تباہ کرکے ہی دم لے گا جو کہ مغرب کا مقصد ہے۔
آئوٹ سورسنگ کے نام پر چلنے والے بزنس پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ یہاں دن میں تین شفٹ چلتے ہیں یعنی آفس بند ہونے کا نام ہی نہیں۔ رات اور دن کام چلتا رہتا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں تین شفٹوں میں سے کسی نہ کسی شفٹ میں کام کرتی ہی رہتی ہیں۔ کال سینٹر بھی اسی زمرہ میں آتے ہیں ، یہاں پر لڑکے لڑکیاں شانہ بشانہ کام کرتے ہیں ۔ سگریٹ پینا عام بات ہے نشہ بازی اور عریانیت یہاں فیشن بن گیا ہے۔ حرام کاری جس کے الگ الگ نام ہیں جیسے
١۔ Pre-matiral Sex یعنی شادی سے پہلے حرام کاری۔
٢۔ Post-marital Sex یعنی شادی کے بعد بیوی کے علاہ دوسری عورتوں سے حرام کاری۔
٣۔ Multi-partner System یعنی ایک سے زیادہ مرد یا عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا۔
٤۔ Gay System or Sodomy یعنی ہم جنسی مردانہ تعلقات ۔
٥۔ Lesbianism یعنی ہم جنسی زنانہ تعلقات۔
سیکس یا فری سیکس کے نام پر ہورہی حرام کاریوں کا تو ایسا حال ہے کہ پاکیزگی ختم ہوگئی، حیا ، آبرو کا کوئی نام نہیں۔ اور نفسیاتی طور پر ایسا ذہن بنتا جارہا ہے جہاں جانوروں کو اگر احساسِ شرم ہوتا تہ وہ بھی یقینا سر جھکا لیتے اور انسانوں سے دور بھاگنے گی کوشش کرتے۔
انٹرنیٹ پر حرام کاری کی تصویریں ، جن کو مغرب کے لوگ بڑی ہی شان سے پیش کرتے ہیں، اور ڈالروں اور پائونڈس میں فروخت کرتے ہیں، یہ سب کس کی پیداوار ہے؟ یہ سب کس کے لئے ہے؟ دیہاتوں میں ایک عام مقولہ ہے ” ایک بندر سارے بن کو خراب کردیا ” ٹھیک اسی کے مانند ذہنی طور سے بیمار چند شیطانی عناصر، مغرب جن کا گیہوارہ ہے، ساری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے، وہ بھی Patents لے کر۔ اب یہاں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ان کو Patents دیتا کون ہے اور ان کے Genious Patents کی دیکھ بھال کون کرتا ہے۔ یہاں پر بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ Patents بنانے والی منڈی بھی انہیں کی تابع ہے۔
مغربی ممالک کی یہ جمی جمائی تجارتی منڈیاں آخر کار کس کی ہُنڈیاں بھر رہی ہیں؟ ذرا سوچئے ہر زاویہ سے، یہ تجارتیں کن لوگوں کی خاطر ہیں؟
اس سے مغرب کو تین فائدے ہیں
١۔ مغربی کلچر اور زبان عام ہوجائیں گی۔
یعنی دنیا کے دیگرمقامی کلچر ختم ہوجائیں گے۔
٢۔ تجارتی کمپنیاں پھیل جائیں گی
یعنی معصوم عوام کو اس ماڈرن مارکیٹ کے دلدل میں گھسیٹ کر اس کا حصّہ بنا دیا جائے گا۔
٣۔ اس عمل سے اور Patents کی بدولت مغرب کی الماریاں ہمیشہ بھرتی رہیں گی۔
اس سے زیادہ مغرب کو اور کیا چاہئے؟
جب کہ
١۔ کسان کو کاشتکاری کرنے کیلئے انگریزی کی کیا ضرورت ہے؟
٢۔ مارکیٹ میں ترکاری بیچنے کیلئے یورپی نظام کی کیا ضرورت ہے؟
اگر ان طبقوں کو آگے لانا ہی ہے تو مادری زبان کے ذریعہ علوم سکھائو اور آگے لے جائو۔
ہندو دھرم ، بُدھ دھرم اور اسلام کے ماننے والوں کے سماجی نظام میں ان چیزوں کا نہ ہی کوئی رواج ہے اور نہ ہی کوئی ترجیع۔ یہ صرف مغرب کی دین ہے جو کہ عالمِ انسانیت سے انسانیت کی شمع کو پھونک کر رکھ دے گی۔ ایک آخری مثال دیکھ لیجئے، پیاسے کو پانی پلانا نیکی اور ثواب میں شامل ہے۔ مگر آج اُسی پانی کی تجارت کی جارہی ہے! یعنی نیکی اور ثواب کی جگہ تجارت و منافعہ اور سود نے لے لی؟ ہماری حکومتیں بھی اس بہائو میں آگر اتنی غیر ذمہ دار ہوگئیں، جس کی بہترین مثال یہ ہے کہ اللہ یا پرمیشور کے راستے میں جو بھی خرچ کرتے ہیں اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہئے۔ ہندو دھرم اور اسلام دونوں میں اس کی سخت تاکید ملے گی کہ بائیں ہاتھ سے کی گئی خیرات کا پتہ دائیں ہاتھ کو نہ چلے۔ لیکن یہاں انکم ٹیکس Department Income Tax ہے جو تاکید کرتا ہے کہ خواہ وہ خیرات ہی کیوں نہ ہو اس کا حساب کتاب حکومت کو دیا جائے۔ تو سوچئے، جذبئہ خیر اور خیرات کی روح کہاں باقی رہ گئی؟
مشرقی تعلیم پائی اور گنگا ہوگیا
مغربی تعلیم پائی اور ننگا ہوگیا
فطرت انسان کو سکھاتی ہے کہ اپنی کمائی میں کچھ بچائو اور آئندہ ضروریات پر اُن کو خرچ کرو۔ اس فطری عمل کو چیونٹی سے اور آلو کے پودے سے سیکھا جاسکتا ہے۔ انسان کو بھی چاہئے کہ اس عمل کو بالترتیب اپنی زندگی میںشامل کریں اور ایک فطری ضابطہ سے فطری عمل کے زاویہ میں آجائیں۔ لیکن انسان یا تو حریص یا بے حسی کی وجہ سے ” آج کھالو کل کا دیکھیں گے ” کے موافق خرچ کردیتا ہے اور ایک کشکول تیار کرلیتا ہے ، جو ہمیشہ خالی رہتا ہے اور بھیک کی طرف مائل کرتا ہے۔
تحریر : سید نثار احمد احمد نثار
شہر پونہ، مہاراشٹر، بھارت
Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in