تحریر : شاہ بانو میر
دروازہ کھولیں ٹھک ٹھک ٹھک رات کے گیارہ بجے فرانس میں آپ کا دروازہ اس زور سے پیٹا جائے تو گھر کا ہر فرد بوکھلا جاتا ہے ـ میرے ہسبنڈ باہر گئے کہ آواز کسی دیسی خاتون کی محسوس ہو رہی ہے ـ جیسے ہی دروازہ کھولا حواس باختہ خاتون تیر کی تیزی سے بھاگتی ہوئی اندر داخل ہوئیں ـ اور زار و قطار رو پڑیں ۔ چیخیں دبانے کیلئے اپنا ہاتھ بار بار ہونٹوں پے رکھ رہی تھیں ـ میرے گھر کے قریب رہنے والی کسی اور قومیت کی خاتون تھیں ـ بیٹی کو اشارہ کیا کہ جلدی سے کچھ ٹھنڈا لاؤ ـ ان کو ذرا حوصلہ ملے اور سکون سے بات کر سکیں ـ اپنے ساتھ لگایا آہستہ آہستہ الجھے بکھرے بال ہاتھ سے درست کئےرخساروں پے بہتا ہوا بے دریغ وہ قیمتی پانی جس کو آنسوکہتے ہیں اس کو صاف کیا ـ ہچکیاں لیتا وجود جوس پینے سے قدرے پرسکون ہوا۔
گھر کے سارے ممبران پریشان ان کے گرد کھڑے تھے ـ جیسے ہر کوئی اسی سوچ میں ہو کہ ان کا مسئلہ حل کر سکے اب بتاؤ کیا ہوا؟ میں نے چائے کے کپ کے ساتھ پین کلر پکڑائی ـ میری بات سنتے ہی اس کا چہرہ پھر متغیر سا ہو گیا ـ گھبراؤ مت ہمارے درمیان ہو آپ سکون سے بتاؤ کیا ہوا؟ آپ مجھے جانتی ہیں؟ ہاں معلوم ہے کہ اپ ہمارے قریب رہتی ہیں ـ یہ حلیہ کیسے بنا؟ حالانکہ جانتی تھی کہ گھر سے آئی ہے تو گھر والے نے ہی ایسا کیا ہوگاـ لیکن اس سے بات شروع کرنے اور معاملے کی تہہ تک جانے کیلیۓ آغاز ضروری تھا ـ یہ آج کی بات تو نہیں ہر روز یہی ہوتا ہے
ہر روز شراب کے نشے میں دھت میرا شوہر ایسے ہی مجھے مارتا ہے ـ آج تو بار بار دیوار پے سر مار رہا تھا ـ جیسے آج مجھے جان سے ہی ماردے گا ـ میں بڑی مشکل سے بھاگ کرآپ کے گھر آئی ـ اس کی آنسو بھری گفتگو میں بغور اس کے حلیے کو دیکھ رہی تھی ـ موزے اور جوتے سے عاری پاؤں جن سے وہ سڑک پر بھاگ رہی ہوگی ـ اور آج یہاں مائنس 2 ٹمپریچر تھا ـ بہت تکلیف ہوئی بغیر سویٹر کے عام سے سوتی جوڑے میں ملبوس یہ پردیس میں ہر روز ستم سہتی عورت مجھے پاکستانی عورت ہی لگی۔
شادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی کوئی بچہ نہیں ورنہ شائد میرے حالات بدل جاتے ـ باجی تھک گئی ہوں اب نہیں کھائی جاتی اتنی مار بے قصور بے وجہ ـ اپنے والدین کو نہیں بتایا ان کو بتانا تھا 7 بہنیں ہیں ـ غربت ہے ـ باہر کا رشتہ ہمارے گاؤں میں بہت بڑی نعمت سمجھی جاتی ہے ـ 7 بہنوں والے گھر میں بیٹی سسرال میں مار کھا کھا کے مر تو سکتی ہے ـ مگر والدین زندہ بیٹی کی واپسی کو کسی طور پسند نہیں کرتے ـ گھر والے شادی کر کے یوں محسوس کرتے ہیں گویا گنگا نہا لئے ہوں ـ مگر یہ جو حال ہے آپ کا ؟ اس کا کوئی مداوا؟ کوئی حل ؟ کچھ نہیں بس نشہ اترے گا تو پھر پہلے جیسا ہو جائے گا۔
اس خاتون کی حالت کے مدِ نظر اُس رات میں نے واپس نہیں جانے دیا اپنے ہی گھر سُلایا ـ سوچا یہ تھا کہ صبح اس کی والدہ کو فون کر کے ان کو سنجیدہ صورتحال کا بتاؤں گی ـ ان کو کہوں گی کہ خدارا آپ لوگ بیٹیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کسی بھی چوکھٹ سے باندھ کر خود کو اسکی ذمہ داری سے آزاد نہ سمجھا کریں اس کی سلامتی اس کی مضبوطی آپ کے دم سے ہے ـ آپ لوگ کسی بڑے کو بٹھا کر اپنی بیٹی کے مصائب کا خاتمہ کریں۔
ایک تو پردیس دوسرے ان پڑھ گاؤں کی سادہ سی عورت جس کو محدود سے راستوں کے علاوہ شائد کچھ علم ہی نہیں ناگفتہ بہ معاشی حالات جن کی وجہ سے شراب کے نشے میں تلخ ہو کر تمام پریشانیوں کا باعث اس کو سمجھ کر اپنے غصے کا غبار نکالتا وہ مرد جو شائد پوری دنیا میں پھیلی معیشت کی بربادی کا دوسروں کی طرح شکار ہے۔
اسکو تسلی دی اس کو حوصلہ دیا کہ مصیبت میں ملا حوصلہ بہت سی کمزوریوں کو طاقت میں بدل دیتا ہے ـ یہی محسوس کیا اس کے چہرے کا زرد رنگ قدرے معمول کی طرف پلٹا الجھی ہوئی بے ربط سانسیں اب تسلسل میں تھیں ـ آنکھوں کی وحشت قدرے اطمینان بخش نظر آئی ـ چائے کے ساتھ لی ہوئی گولی اپنا اثر دکھا رہی تھی وہ باتیں کرتے کرتے نیند میں چلی گئی ـمیں بھی اس کے ساتھ ہی سو گئی رات بھر کئی بار اٹھ کر اس کو دیکھا ہولے ہولے سر کو دباتی کراہتی اس تنہا پردیسی خاتون پے بہت ترس آیا ـ صبح ہوئی تو بڑی مشکل سے چائے پلائی ناشتے کا کہا ہی تھا کہ وہ رات کی طرح جیسے آئی تھی ویسے ہی زقند بھر کے دروازے کی طرف لپکی ـ آپ کی جوتی پہن کر جا رہی ہوں باجی ـ سنو رک جاؤ ایسے مت جاؤ ورنہ پھر۔
اپنی شال اسے اوڑہاتے ہوئے کہا ـ یہ لے جاؤ سردی بہت ہے ـ رک جاؤ اس کو ذرا احساس ہونے دو ـ کہ اس نے زیادتی کی ہے ـ نہیں باجی اس کو بھوک لگی ہوگی ـ اس کو کچھ بھی بنانا نہیں آتا ـ ناشتہ بھی نہیں کیا ہوگا اس نےـ مجھے جانے دیں ـ واہ بنتِ حوا میں تیرے قربان کئی سالوں سے سہتی مار سوجھا ہوا چہرہ ہاتھ سے سر کو ہولے ہولے دباتی یہ عورت ہلکی آواز میں کراہتی ہوئی میرے ساتھ سوئی یہ خاتون ایک ہی رات میں سارا درد سارا غصہ سارا دکھ بھول گئی یاد رہا تو صرف یہ اس ظالم کو بھوک لگی ہوگی ـ اس کو کچھ بنانا نہیں آتا۔
ہر صورت ابھی اسی وقت گھر جانا ہے ـ بے شک آج رات پہلے سے زیادہ وہ نشہ کرے پہلے سے زیادہ مارےاس کی جان چلی جائے ـ لیکن اس خوف پے اس ڈر پے وہ احساس حاوی رہا جو اصل مشرقی عورت کا زیور ہے ـ اس کی وفا اس کی قربانی اس کا ایثار اس کی برداشت ـ مشرق مشرق ہے ـ اس کی روایات اس کی تربیت اس کی برداشت کی اپنی ہی داستان ہے ـ وہ خظہ ارض پاکستان ہو بھارت ہو بنگلہ دیش ہو یا نیپال بھوٹان مشرقی عورت جیسی کہیں نہیں۔
تحریر : شاہ بانو میر