تحریر: محمد صدیق پرہار
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) نے ٹیکس وصولی میں چالیس ارب کا خسارہ پورا کرنے کے لیے ملک میں درآمدہونے والی تین سوپچاس اشیا پر پانچ سے دس فیصداضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی ہے۔اب ان شیاپرریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح دس فیصد سے بڑھا کر پندرہ سے بیس فیصدہوگئی ہے۔دوسونواسی لگژری اشیاکی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح دس فیصدسے بڑھاکرپندرہ فیصدجبکہ اکسٹھ نئی اشیاکی درآمد پر بیس فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔ دہی ،مکھن، پنیرڈیری اشیا، شہد، امرود، آم، مالٹے، پولٹری، خشک میوہ جات،ٹی وی،س ٹیلائٹ ڈش، ریسیور، سگنل لینے والے آلات ،واٹرڈسپنسر، ریفریجریٹرز ،مائیکروویو اوون، ایئرکنڈیشنز پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھادی گئی ۔شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، شیونگ آئٹمز، پرفیوم کی درآمد اور میک اپ کے سامان پربھی دس فیصدریگولیٹری ڈیوٹی عائدکی گئی۔
ملک میں تیار ہونے والی تمام اقسام کے سگریٹس پرفیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیاگیا ہے ۔کم قیمت سگریٹس پرڈیوٹی کی شرح ٣٠٣٠ سے بڑھاکر٣١٥٥ فی ہزارسگریٹ اوراچھی کوالٹی کے سگریٹس پرڈیوٹی کی شرح ١٣٢٠ روپے سے بڑھاکر١٤٢٠ روپے فی ہزار سگریٹ کردی گئی ہے۔ ملک میں درآمد ہونے والی استعمال شدہ گاڑیوںکی فکسڈ درآمدی ڈیوٹی دس فیصد کی شرح سے بڑھادی گئی ہے۔جس کے مطابق ١٠٠١ سی سی سے ١٣٠٠ سی سی گاڑیوں کی ڈیوٹی پرڈیوٹی کی شرح ١٢٠٠٠ ڈالرسے بڑھاکر١٣٢٠٠ڈالرکردی گئی ہے۔١٥٠٠سی سی گاڑیوں پر ڈیوٹی کی شرح ١٦٩٨٠ ڈالر سے بڑھا کر ١٨٥٩٠ ڈالر کی گئی ہے۔ ١٥٠١ سی سی سے ١٦٠٠ سی سی تک کی درآمدی ڈیوٹی ٢٠٥٠٠ڈالرسے بڑھاکر٢٢٥٥٠ ڈالرکردی گئی ہے۔ ١٦٠١ سی سی سے ١٨٠٠ سی سی گاڑیوں کی درآمدی ڈیوٹی ٢٥٤٠٠ ڈالرسے بڑھاکر ٢٧٩٤٠ ڈالر کردی گئی ہے۔
اسی طرح ملک میں ایک فیصد کسٹمز ڈیوٹی پر درآمد ہونے والی اشیا پر کسٹمز دیوٹی میں ایک فیصد اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ای سی سی اجلاس سے بعدوزرات خزانہ میں ایک بریفنگ کے دوران اخبارنویسوںکوبتایاگیاجن اشیاپرکسٹم ڈیوٹی کی شرح میں ایک فیصداضافہ کیاگیا ہے ان میں لیدرانڈسٹری، شوگرانڈسٹری،پنکھوںکی صنعت، سٹیل وسریا کی صنعت ،الیکٹرک موٹرسازی کی صنعت شامل ہے ۔جو اشیا اس اضافی کسٹم ڈیوٹی کے زمرے میں نہیں آئیں گی انمیں درآمدی کھاد ،فصلیں بونے کے آلات اور مشینری شامل ہیں ۔جن اکسٹھ نئی اشیا پر دس فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے
ان میں زندہ مرغی،مچھلی کاگوشت، خشک میوہ جات، بادام، حلال جانوروں کے دل،کلیجی، گردے، کوکابٹر، چربی، خوردنی تیل، پائن ایپل، ناشپاتی ،لوکاٹ، آڑو ،سٹرابری، ناریل کافی، چائے،ٹرنک سوٹ کیس،ایگزیکٹوبریف کیس،ملبوسات، چمڑے کے ملبوسات، اوورکوٹ، ٹوپیاں، ہیٹ، گاڑیوں کے پلاسٹک کور، گھڑیاں، جیکٹس، شرٹس،ب لائوز، انڈرپینٹ س،نائٹ سوٹس، ویسٹس، پینی کوٹ، پاجامہ ،بچوں کے کپڑے، فیبرک کی دیگر اشیا، ٹریک سوٹسم سوئمنگ سوٹس، بریزیئرز، رومال ،مفلر، ٹائی، ٹیبل لینن ،کچن لینن، پردے ،کمروں کا اندرونی سامان آرائش، اوون فیبرکس ،رسی، واٹر پروف جوتے، ربر پلاسٹک کے شوز ،دیگراقسام کے جوتے بغیر سول کے، چمڑے کی دیگراشیا ،ربڑ کے بنے جوتے، شیشے کے منکے، مصنوعی موتی، مصنوعی زیورات، کلائی گھڑی، ٹائم پیس، دیگراقسام کی گھڑیاں ،جسمانی ورزش کی مشینیں، جھاڑوم جمنازیم کاسامان شامل ہے۔
جن اشیاپرریگولیٹری ڈیوٹی میں پانچ فیصداضافہ کرکے اسے پندرہ فیصدکیاگیا ہے ان میںدہی، مکھن، ڈیری سپریڈ،قدرتی شہد،پائن ایپل،امرود، آم، آم کاگودا،خشک آم ، مالٹے، لیمن،تربوز، پاپوا،سیب، لوکاٹ،چیری،کیوی فروٹ،ڈورئین،پائن نٹ، چیوئنگ گم،وائٹ چاکلیٹ،چلغوزہ، الائچی،ڈرائی فروٹ، پستہ، میکرونی، سویاں،کارن فلیکس ،سیرئیل ز،بلگرویٹ ،کرسب بریڈ ،جنجربریڈ، میٹھے بسکٹس،ویفلز اور ویفرز ،رس ، اچار، ٹماٹر، ٹماٹر کا پیسٹ، مشروب، سبزیاں، اوران کے مکسچر، آلو ،مٹر ،پ ھلیاں ،ز یتون، میٹھی مکئی ،جوس والے پھل ،ٹماٹر کا جوس ودیگر اشیاشامل ہیں۔
کمیٹی نے مالی سال دوہزارپندرہ سولہ کے لیے گندم کی امدادی قیمت تیرہ سوروپے من برقراررکھنے،مکئی کی درآمدپرتیس فیصدریگولیٹری ڈیوٹی عائدکرنے،اورنان فائلزکے لیے بینکوںسے رقوم کی ترسیل پرایڈوانس ٹیکس کی صفراشاریہ تین فیصدرعائتی شرح میں اکتیس دسمبرتک توسیع کی منظوری دے دی ہے۔اسحاق ڈارنے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پرعام آدمی کے استعمال کی اشیاپرٹیکس نہیںلگائیں گے۔ایک اورقومی اخبارمیں شائع شدہ خبرمیں ہے کہ عام آدمی کے زیراستعمال ہزاروںاشیاجن میں ادویات، خام مال،کھاد، الیکٹرک موٹرز،پیڈیسٹل فین،درآمدی بیج، مینوفیکچرنگ پریہ ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی لاگونہی ںہوگی ۔ٹیلی کام سیکٹرپربھی کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیں ہوگی۔ آٹھ سوسی سی سے ایک ہزارسی سی تک استعمال شدہ گاڑیوںکی درآمدپرڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیںکیاگیا۔
وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈارنے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعدپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولات کے ہدف میں چالیس ارب روپے کی کمی کوپوراکرنے کے لیے ای سی سی کے اجلاس میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔پٹرلیم مصنوعات کی قیمتوںکے حوالے سے وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے بتایا کہ پٹرول اورڈیزل کی قیمتیں برقراررہیں گی اوران میںکسی قسم کی کوئی کمی بیشی نہیںہوگی جبکہ اوگراکی تجویزکردہ قیمتوںکے مطابق مٹی کے تیل کی قیمت ٧٩ پیسے،لائٹ ڈیزل کی قیمت میں چھتیس پیسے کمی کی گئی ہے اورہائی اوکٹین کی قیمت میں ٨٧ پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔انہوںنے کہا عام آدمی کے زیراستعمال کسی درآمدی اشیاپرڈیوٹی عائدنہیں کی گئی اورنہ اضافہ کیا گیا ہے۔وزیرخزانہ نے بتایا مقامی تیارشدہ کسی گاڑی پرکوئی کوئی ڈیوٹی عائدنہیںکی گئی۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے کہا ہے کہ عام آدمی کے استعمال کی اشیا پرٹیکس نہیں لگائیں گے۔دہی، مکھن، پنیر،ڈیری اشیا،شہدامرود،آم ،مالٹے،پولٹری، خشک میوہ جات، ٹی وی،ریفریجریٹرز، مائیکروواوون ،شیمپو ، ٹوتھ پیسٹ،سگریٹس،زندہ مرغی، خوردنی تیل پائن ایپل، ناشپاتی،ناریل ،کافی ،چائے ،بریف کیس، ملبوسات ، اوورکوٹ ٹوپیاں، گھڑیاں، جیکٹس، شرٹس، ٹرنک، پاجامہ، رومال، مفلر، ٹائی ،بچوں کے کپڑے، پردے، جوتے، پلاسٹک شوز، دیگر اقسام کے جوتے، کلائی گھڑی ،دیگر اقسام کی گھڑیاں ،جھاڑو ،سیب، سویاں ،مفلر، رس ، اچار، ٹماٹر، میٹھے بسکٹس، مشروب، سبزیاں، آلو،مٹر،پھلیاں، جوس والے پھلوںمیں سے کون سی ایسی چیز یاچیزیںہیں جوعام آدمی کے استعمال میں نہیں ہیں۔گدھوں، حرام جانوروں، مردہ اور مردار جانوروں کی کھالوں کے سیکنڈل کے سامنے آنے اورحرام گوشت کی فروخت کی خبریں آنے کے بعدعوام نے مرغی اورسبزیاں کھانے والوںمیں اضافہ ہوگیا ہے۔ مرغی گوشت اور سبزیاں پہلے ہی سستیاں نہیں ہیں ان پرریگولیٹری ڈیوٹی بڑھ جانے سے ان کی قیمتوں میں اوربھی اضافہ ہوجائے گا۔ جس سے عام آدمی کاروزانہ کابجٹ بہت متاثرہوگا۔
لوگ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں کرتے ہیں تووہ اور جو کچھ خریدیں یا نہ خریدیں وہ دولہا دولہن کے لباس اورسامان وغیرہ رکھنے کے لیے ٹرنک وغیرہ ضرور خرید کرتے ہیں۔ ملبوسات اورٹرنک پربھی ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔لوگ اپنی بچیوںکی شادیاں کرتے وقت ان کے لیے زیورات بنواتے ہیں۔ زیورات کی قیمتیں پہلے ہی ہوش ٹھکانے لگادیتی ہیں اب ان پرریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ سے لوگوں کی مشکلات میں اوراضافہ ہوجائے گا۔ویسے دیکھا جائے تواسحاق ڈارنے درست ہی کہا ہے کہ عام آدمی کے استعمال کی اشیاپرٹیکس نہیں لگائیں گے۔ کیونکہ جن چیزوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے ان میں گاڑیاں، ایئرکنڈیشنز توویسے ہی خاص لوگ استعمال کرتے ہیں جبکہ دیگر اشیا کی قیمتیں ہی اب اتنی بڑھ چکی ہیں کہ عام آدمی ان چیزوں کو خریدنے کے قابل ہی نہیں رہا۔اب سبزیاں پکاکرکھانا بھی آسائش کے زمرے میں ہی آتا ہے اس لیے عام آدمی اب سبزیاںکھانہیں سکتا۔جویہ سب چیزیں استعمال کرتا ہے وہ خاص آدمی ہے عام آدمی نہیں ہے۔
اب سوچنا یہ ہے کہ عام آدمی کی آمدنی پہلے ہی اتنی نہیں ہے کہ وہ گوشت خریدکرکھاسکے وہ اب سبزیاںبھی نہیںکھاتا تووہ کھاتا کیا ہے۔شایدوہ روٹی، چٹنی یاروکھی ہی کھاجاتا ہوگا۔اخباری خبروںکے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوںمیں کمی ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات میں پٹرول اورڈیزل میںکوئی کمی نہیں کی گئی جبکہ دیگرپٹرولیم مصنوعات میںبرائے نام کمی کی گئی ہے۔چالیس ارب روپے کے یہ نئے ٹیکس آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پرلگائے گئے ہیںیامحصولات کی وصولی میںکمی کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں اوربھی اضافہ کردیا گیا ہے۔اسحاق ڈارنے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعدپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ رواںمالی سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولات کے ہدف میں چالیس ارب روپے کی کمی کوپوراکرنے کے لیے ای اسی سی کے اجلاس میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔
اس میں دوباتیں سامنے آتی ہیں کہ پہلی بات یہ ہے کہ پہلے ہی ہدف اتنا زیادہ رکھا گیا کہ اس کو پورا کرنامشکل ہوگیایہ بجٹ تیارکرنے والوں کی غلطی ہے دوسری بات یہ ہے کہ بجٹ میں محصولات کاہدف درست تھا تویہ وصول کرنے والوں کی ناکامی ہے کہ وہ پہلی سہ ماہی کاہدف بھی پورانہیں کر سکے۔ دونوں صورتوں میں غلطی یا کوتاہی جس کی بھی ہواس کی سزا ملک بھرکی عوام کو دینا مناسب نہیں ہے۔ جوں حکومت کے محصولات ادانہیں کرتے ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔محصولات کی وصولی کویقینی بنایا جائے نہ کہ ملک بھرکی عوام پر چالیس ارب کانیابوجھ ڈال دیا جائے ۔ملک ترقی کررہا ہے۔ معیشت ترقی کررہی ہے۔ معیشت درست سمت جارہی ہے۔اب پہلی ہی سہ ماہی میں محصولات کے ہدف میں چالیس ارب روپے کی کمی کاانکشاف وزیرخزانہ نے خودکیا ہے تواس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی معیشت کس سمت جارہی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ پہلی ہی سہ ماہی کایہ حال ہے تومالی سال مکمل ہونے پرکیا حال ہوگا۔
پہلی سہ ماہی کاخسارہ پوراکرنے کے لیے توریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے دیگر دوسہ ماہیوںکاخسارہ پوراکرنے کے لیے بھی اسی طرح کے ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں۔دیگر دونوں سہ ماہیوںمیں ہی اسی طرح خسارہ پوراکرنے کے لیے اورٹیکس لگائے گئے توقیمتیں کہاںتک پہنچ جائیں گی یہ تصورکرتے ہی اوسان خطاہوجاتے ہیں۔آئی ایم ایف کے پا س جانا اوراس کی سخت شرائط کوپاکستان کی طرف سے تسلیم کرنے سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کس سمت جارہی ہے۔ ملک کی معیشت ترقی کررہی ہے ، درست سمت جارہی ہے توآئی ایم ایف کے پاس کس لیے حکومت گئی ہے۔اس کی اتنی سخت شرائط کس لیے منظورکی گئی ہیں۔چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے سے حکومت کی ساکھ پربھی اثرپڑے گا۔عام صارفین بجلی کابل بھی ادانہ کریںتوان کے میٹرکے کنکشن کاٹ دیے جاتے ہیں۔
بل کے ساتھ عدم ادائیگی کی صورت میںکنکشن کاٹنے کانوٹس بھی بل پرلکھ دیا جاتا ہے تویہ محصولات میں مالی سال کی پہلی ہی سہ ماہی میں چالیس ارب روپے کی کمی کیسے آگئی۔ کہیںا یسا تونہیں کہ غریب اورکمزورکوچھوڑونہ اوربااثراورطاقتورکوچھیڑونہ ۔ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کرنے سے حکومت کے سیاسی مخالفین کورائے عامہ حکومت کے خلاف کرنے کابھی موقع مل جائے گا۔حکومت کوآئی ایم ایف کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔عالمی مالیاتی ادارے کبھی نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کا کوئی ملک ترقی کرے۔وہ بظاہرتومعیشت کی ترقی کے لیے سخت شرائط منواتے ہیں حقیقت میں ان شرائط سے معیشت تو مضبوط نہیں ہوتی البتہ عوام پرمہنگائی کے بوجھ میں اوراضافہ ضرورہوجاتا ہے ۔حکومت پھل، سبزیاں، ملبوسات، مصنوعی زیورات، ٹرنک، مشروبات اور دیگر روز مرہ کی عام استعمال کی اشیاپرریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ واپس لے۔تاکہ عام آدمی واقعی اس سے متاثرنہ ہو۔
تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com