تحریر : مہر بشارت صدیقی
چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور ایٹمی صلاحیت کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا پراجیکٹ ہے جو ملک کی ترقی کا ضامن ہے ، اسے ایک خاص علاقے تک محدودکرکے مرکزی حکومت اسے متنازعہ نہ بنائے۔اقتصادی راہداری منصوبے پرتحفظات،پاکستانی سیاستدانوں نے چین کوتشویش میں مبتلاکردیاہے۔ دنیا بھر میں جاری بڑے اور وسیع اثرات کے حامل منصوبوں میں سے ایک چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سی پیک کا اعلان ہوتے ہی اس پر سوال اٹھانے اور تحفظات ظاہر کرنے کا سلسلہ برقرار ہے۔ ایک جانب سے پاکستان مخالف قوتیں ہیں جو اس منصوبہ کی افادیت کو مد نظر رکھ کر اس کی مخالفت کررہی ہیں تو دوسری جانب سے ایسے عناصر بھی ہیں جو مقامی یا گروہی مفادات کے تناظر میں اس پر سوال اٹھارہے ہیں۔ مختلف پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے نتیجہ میں پیدا شدہ کیفیت اتنی بڑھی کہ اس منصوبہ کے اہم پارٹنر چین کو لاحق تشویش بھی سامنے آگئی۔ چین کا کہناہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ( سی پیک) پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے یہ منصوبہ پورے پاکستان کیلئے ہے اور منصوبے کی فعال تعمیر کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ چین نے جہاں منصوبے کی افادیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے وہیں یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتیں اقتصادی راہداری پر اختلافات ختم کرلیں گی۔
چینی سفارتخانے کے ترجمان کی جانب سے دوروزقبل جاری بیان میں اس امید کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے اپنے رابطوں کو مضبوط بنائیں گی اور منصوبے کے حوالے سے سازگار ماحول قائم کرنے کیلئے اپنے اختلافات مناسب طریقے سے حل کرلیں گی۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر دونوں ممالک میں اتفاق رائے موجود ہے اور اسے دونوں ممالک کے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ سی پیک منصوبہ پورے پاکستان کیلئے ہے اور یہ پاکستانی عوام کیلئے ترقی اور خوشحالی لائے گا۔چین کی طرف سے تشویش کے بعد اب سیاستدان پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں رکاوٹیں پیدا کرکے پاکستان کی سالمیت و استحکام اور یکجہتی سے نہ کھیلیں۔ موجودہ صورتحال میں جبکہ پاکستان داخلی اور خارجی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اقتصادی راہداری ہمارے دیرینہ اور آزمودہ دوست کی دوستی کی عظیم نشانی اور تحفہ ہے۔ مغربی طاقتیں اور باالخصوص ہمارا ہمسایہ بھارت اس عظیم منصوبہ پر خوش نہیں ہیں اور اس کے خلاف واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
پاک چائنہ اکنامک کوریڈور بلاشبہ اس خطہ میں تبدیلی و تعمیر کا بہت بڑا منصوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم سیاستدان اس پر بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اتنے بڑے منصوبہ پر سیاسی بصیرت کا فقدان بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے کیونکہ اگر اس منصوبہ کو منسوخ یا تاخیر کا شکار کیا گیا تو پاکستان اس عشرہ کے سب سے بڑے قومی سانحہ کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ اتفاق رائے کے نام پر پورے ملک کو گوناگوں مسائل سے دوچار کر دیا گیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال کالاباغ ڈیم ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ہر مسئلہ یا ہر معاملہ میں سو فیصد اتفاق رائے حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی پاکستان سو فیصد اتفاق رائے سے قائم کیا گیا تھا۔دنیا میں کوئی ملک بھی سو فیصد اتفاق رائے کے پیچھے نہیں بھاگتا اور نہ ہی سمجھدار ممالک ایسے ترقیاتی منصوبوں پر مسائل پیدا کرتے ہیں جو ملکی مفاد میں ہوں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے حکومت سے گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے کا مکمل اختیار فوری طور پر بلوچستان کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اجلاس کے شرکاء نے مطالبہ کیا کہ اقتصادی راہداری کا مغربی روٹ پہلے مکمل کیا جائے۔ بلوچستان میں ملازمتوں میں بلوچوں کو ترجیح دی جائے۔آل پارٹیز کانفرنس نے مقامی آبادی حق ملکیت کے تحفظ کے لئے قانون سازی کا مطالبہ کیا مختلف جماعتوں کے مرکزی رہنمائوں کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گوادر میں سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے مقامی لوگوں کی شراکت داری کو یقینی بنایا جائے۔ اقتصادی راہداری کے لئے سکیورٹی فورسز میں مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں کے حقوق اور عزت نفس محفوظ رہے۔اے پی سی میں منظور شدہ قراردادوں میں گوادر پورٹ میگا پراجیکٹ کا مکمل طور پر اختیار بلوچستان کو دیا جائے اور بلوچستان کے ساحل، وسائل پر اختیار و حق ملیکت کو تسلیم کیا جائے۔ وزیراعظم کی جانب سے 28 مئی 2015ء کو بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ پر من و عن عمل درآمد کرتے ہوئے اقتصادی راہداری مغربی روٹ پر کام کرنے کے وعدے کو پورا کیا جائے۔ وزیراعظم کی جانب سے کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں۔ گوادر اور بلوچستان کے عوام کو اس منصوبے کے ثمرات سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کریں۔گوادر کے بلوچوں اور بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے فوری طور پر قانون سازی کی جائے تاکہ ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگوں کو گوادر سے شناختی کارڈز، لوکل، پاسپورٹ جاری کرنے پر مکمل پابندی ہو اور انتخابی فہرستوں میں ان کے ناموں کا اندراج نہ ہوسکے۔
گوادر کے عوام کو فوری طور پر صاف انفرسٹرکچر، ہسپتال، سکول، ٹیکینکل کالجز اور پورٹ سے متعلق ہنر مند افراد کے لیے ٹیکنیکل سینٹرز اور میرین یونیورسٹیز کی جائیں اور ان میں گوادرکے مقامی لوگوں کو ترجیح دی جائے۔ گوادر پورٹ اور میگا پراجیکٹس کے تمام ملازمتوں میں گوادر مکران اور بلوچستان کے فرزندوں کو ترجیح دی جائے۔ گوادر میں ماہی گیروں کو معاشی استحصال سے بچانے کے لیے انہیں متبادل روز گار دیا جائے۔ گوادرکے مقامی لوگوں پر مختلف قسم کی جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کو فوری طور ختم کرکے نقل و حمل کی مکمل آزادی دی جائے، سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں ختم کی جائیں۔ گوادر میں لوگوں کے علاج معالجہ کی سہولتیں دی جائیں۔
گوادر کے لوگوں کو بیرونی ممالک میں مفت ٹیکنیکل تربیت دی جائے۔ ملک کے دیگر صوبوں کے اعلی تعلیمی اداروں میں فری سکالر شپ دی جائے۔ گوادر کے مقامی لوگوں کے ہزاروں ایکڑ آبائی زمینوں کو سرکاری تحویل میں لینے کی مزمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں دوبارہ اصل مالکان کے حوالہ کیا جائے۔ گوادر میں سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے مقامی لوگوں کی شراکت داری کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ گوادر کے لیے سکیورٹی فورسز میں مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں کے حقوق اور عزت نفس محفوظ رہے۔ گوادر کے پرانے اور تاریخی شہر کو کہیں اور منتقل کرنے کی پالیسی قبول نہیں۔ گوادر کے پرانے تاریخی شہر کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے۔
تحریر : مہر بشارت صدیقی