تحریر: الیاس محمد حسین
میاں نواز شریف کے دوسرے دور ِ حکومت میں ”قرض اتارو ملک سنوارو ” سکیم شروع کی گئی اس کیلئے عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا جب منتخب وزیر اعظم کی حکومت کا تختہ الٹا گیا یہ سکیم اور اس کیلئے جمع شدہ خطیر رقوم کہاں گئیں کوئی نہیں جانتا یہ بات اب تلک ایک معمہ بنی ہوئی ہے پاکستان پر واجب الادا قرضوںکی کہانی بھی عجیب ہے یہاں منتخب ،غیر منتخب اور حتیٰ کہ نگران حکومتوں نے بھی عالمی مالیاتی اداروں، بیرون ِ ممالک اور آئی ایم ایف سے دل کھول کر قرضے لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی یہ رقوم کہاں خرچ کی گئیں قوم کو کچھ معلوم نہیں میاں نواز شریف کے دور ِ حاضر میں بھی سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کا بڑا شہرہ ہے کوئی اسے قرض قراردے رہا ہے
تو کوئی اسے امداد کا نام دے رہاہے کچھ سیاستدان اس بارے میں اپنے تحفظات کااظہار بھی کررہے ہیں درحقیقت پاکستان پر واجب الادا قرضے ایک ایسا سلگتا ہوا سوال ہے جس کے بارے میں شاید معقول جواب کسی کے پاس بھی نہیں وزیر سے لے کر وزیر ِ اعظم تک ہر کوئی اس بارے بات کرنے سے کتراتا ہے حکومتی اخراجات میں بے اعتدالی، اللے تللے ،ناقص منصوبہ بندی اور دیگر ایسے کئی عوامل غیر ملکی قرضوں کو ادائیگی میں بڑی رکاوٹ ہیں کئی سالوں سے ہماری اقتصادی و معاشی صورت حال یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینے کی نوبت آن پہنچی ہے پاکستان پر واجب الاداغیر ملکی قرضوں کی مالیت چار کھرب سے بڑھ کر 9کھرب تک جا پہنچی ان حالات میں وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ کئی حکومتی کے کرتا دھر تا بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں
جبکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی اصلاح ِ احوال کیلئے کچھ نہیں سو جھ رہا اس سے پہلی حکومت کے دو رمیں ملک پر مجموعی طورپر بیرونی قرضہ 4کھرب تھا مشرف دور میں عوام کو بجلی سمیت کئی ضروری اشیاء پر سبسڈی دی جارہی تھی جو موجودہ حکومت نے بتدریج ختم کردی سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب یہ سبسڈی بھی نہیں نوٹ بھی دھرا دھڑ چھاپے جارہے ہیں پھر ملک پر بیرونی قرضوں میں مسلسل اضافہ کیوں ہوتا چلا جارہا ہے؟ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے انتخابی و عدے کے بر عکس ڈیڑھ دو سال میں ہی 5کھرب کا نیا قرضہ لے لیا یہ پانچ کھرب کہاں گئے
کیا محترم وزیر ِ خزانہ اس کا جواب دینا پسند کریں گے 17 کروڑ سے زائدکی آبادی کے ملک پاکستان کا ہر شہری قریباً80000ّ روپے کا مقروض ہو گیا ہے جوفی کس آمدنی کے لحاظ سے 65 فی صد سے بھی زائد ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون 2009 ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے 50 ارب 10 کروڑ ڈالر تھے جبکہ ملکی قرضوں کی مالیت 46.57 ارب ڈالر بھی تجاوز کررہے تھے ملکی قرضوں میں24ارب ڈالر شارٹ ٹرم قرضے ٹریڑری بلز کی شکل میں اس کے علاوہ ہیں اس طرح ملکی قرضوں کی مالیت مجموعی قومی پیداوار 57.6 فی صد کے برابر ہے ،پاکستان پر قرضوں کا یہ بوجھ اوسط سالانہ آمدنی سے 5گنا اور بجٹ ریونیو سے 6 گنا زیادہ ہے۔
کہا جاتاہے میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ”ملک سنوارو۔۔۔ قرض اتارو ” سکیم قومی امنگوں کے عین مطابق تھی جنرل مشرف اگر میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ نہ الٹتے تو شاید پاکستان غیر ملکی قرضے اترنے میں کامیاب ہو جاتا ۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر قرضوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2013ء میں قرض معاہدہ کی پہلی قسط جب پاکستان کو ملی لیکن اسی مدت کے دوران پاکستان کو3قرضوں کی ادائیگی کرنا پڑی ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ جوں جوں پاکستانی روپے کی قیمت کم ہوتی ہے غیرملکی قرضوں کی مالیت میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لئے اپنے دسائل پر انحصار کرنا ہو گا
ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے ۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب تک پاکستان کے تمام قرضے ا دا نہیں کردئیے جاتے وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہ ، ہر قسم کی مراعات ،پروٹوکول اور الائونسز بندکردئیے جائیں مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے تمام تر وسائل پر قابض اشرافیہ کو یہ تجویز پسند نہیں آئے گی اور وہ دل و جان سے ایسی ہر تجویز کی مخالفت کریں گے کیونکہ وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو ان کے مفادات ایک ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بیوروکریسی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ اس طبقہ کی تمام آشائسیں پاکستان کے دم سے ہیں پاکستان ہے
تو ہم سب کا مستقبل تابناک اور روشن ہے ۔حکومت کو اب زبانی جمع تفریق کی روش ترک کرنا ہوگی قرضوں کے حصول اور ادائیگی کے طریقہ ٔ کار طے کرنے کے لئے ایک جامع پالیسی تیار کرنی چاہیے ورنہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض رہے گا اور آنے والی نسلیں کبھی ہمارے حکمرانوں کومعاف نہیں کریںگی۔ اس ساری صورت ِ حال کے تناظرمیں اس زمینی حقیقت سے نظر چرانا ممکن نہیں پاکستان پر واجب الادا قرضوںکی وجہ سے آنے والی نسلوں کا مستقبل عالمی طاقتوں کے پاس گروی رکھ دیا گیاہے سر ِ دست کوئی ایسا فارمولا، حکمت ِ عملی یا منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی جس کے تحت ان قرضوں سے نجات مل جانے کا کوئی راستہ بن سکے جب تک پاکستان ان قرضوںسے نجات حاصل نہیں کرتا عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو سے آزادی ممکن نہیں اور پاکستان کی معاشی، معاشرتی اور اقتصادی حالت بہتر ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
تحریر: الیاس محمد حسین