لاہور( کالم ۔ حسن نثار) اقصادیات کی شدبد رکھنے اور اس کی اصطلاحات سے پرانی شناسائی کے باوجود جب میں اس خشک مضمون کے ماہرین کو ٹی وی پر گفتگو کرتے دیکھتا ،سنتا ہوں تو کچھ دیر کے بعد بوریت محسوس ہونے لگتی ہے۔ تب مجھے خیال آتا ہے کہ عام آدمی پر کیا گزرتی ہوگی ۔۔۔۔۔ سینئر صحافی حسن نثار اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔حکومتی لوگ اسے جتنا اچھا بتا رہے ہیں، یہ اتنا عمدہ ریفارم پیکیج ہرگز نہیں اور اپوزیشن والے اس میں جتنے کیڑے دیکھ رہے ہیں، وہ بھی درست نہیں، لیکن کیا کریں کہ دونوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں کہ چاہیں بھی تو سچ بول نہیں سکتے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی کس کی سنے اور کدھر جائے؟ تو میں ایک سادہ سا حل تجویز کئے دیتا ہوں کہ عام آدمی مٹھ رکھے اور صرف چند ہفتے انتظار کرلے، یہ منی بجٹ المعروف ریفارم پیکیج گھر گھر پہنچ کر خود ہی اپنی خوبیوں، خامیوں کا تعارف کرا دے گا کیونکہ دنیا کا کوئی چرب زبان ترین آدمی بھی کسی بھوکے کو اس بات پر قائل نہیں کرسکتا کہ اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ وہ عورت جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنے بھوکے بچوں کو بہلانے کے لئے پانی میں پتھر ڈال کر ابال رہی تھی، بالآخر بری طرح ایکسپوز ہوگئی ہوگی۔ اسی طرح کوئی بھی فائنانس منسٹر جتنا چاہے زبانی جمع خرچ کرلے، آخر کار ایکسپوز ہو جاتا ہے اس لئے بحث کرنے یا کنفیوژ ہونے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ آمدنی اوراخراجات کے ملاپ کا نتیجہ آپ کو خود سمجھا دے گا کہ کس بھائو بک رہی ہے۔روز اول سے میری سوچی سمجھی، نپی تلی رائے یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے فوراً بعد وزیراعظم یا وزیر خزانہ کو پوری تفصیل کے ساتھ زہریلی فیکٹ شیٹ تفصیلی طورپر قوم کے سامنے رکھ کر اسے اعتماد میں لے کر بتا دینا چاہیے تھا کہ ان حالات سے نکلنے کے لئے کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں ہے اور قوم کو اپنے اجتماعی پیٹ پر پتھر باندھ کر بھلے وقتوں کا صبر سے انتظار کرنا ہوگا جبکہ حکومت اپنے پیٹ کے ساتھ دو پتھر باندھے گی لیکن اس اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اک ایسی پکچر پینٹ کی گئی کہ عوام کی معصوم توقعات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا اور بات وہاں پہنچ گئی جہاں ایک جھوٹ نبھانے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اکانومی کے بارے میں نیم خواندہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ اسے نہ راتوں رات ’’آباد‘‘ کیا جاسکتا ہے نہ ’’برباد‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر تیل بھی نکل آئے تو راتوں رات ثمرات نہیں ملتے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما پراسیس ہے جس سے آگاہ کرنا ضروری تھا۔ جس معیشت کو دونوں نہیں، درجنوں ہاتھوں کے ساتھ برسہا برس بے رحمی سے لوٹا گیا ہو، اس کا چند مہینوں تو کیا چند سالوں میں سنبھل جانا بھی کسی معجزہ سے کم نہ ہوگا۔ بالخصوص ان حالات میں جہاں اور کچھ بڑھنا تو بے حد محال جبکہ آبادی میں اضافہ کی گارنٹی ہے۔ مالتھس کی تھیوری آف پاپولیشن پڑھ لیں تو مدتوں کے لئے شنانت ہو جائیں گے۔سادہ ترین انداز میں عرض کروں تو یہ کہ آبادی ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ کے حساب سے نہیں بڑھتی بلکہ اس کی بڑھوتری دو، چار، آٹھ، سولہ، بتیس، چونسٹھ اور 128کی طرز پر ہوتی ہے۔ مجھے اس ملک کے کرتوں دھرتوںپر حیرت ہے کہ اول تو انہیں اس کا کبھی خیال نہیں آیا اور اگر آیا بھی تو اتنا ڈھیلا ڈھالا جو نہ ہونےکے برابر ہے۔ کسی اعلیٰ ترین منصوبہ بندی کے نتیجہ میں زوال کا سفر رکنے کے بعد ’’نیوٹرل‘‘ ہوکر آگے بھی بڑھے تو ترقی کی یہ رفتار آبادی میں بڑھوتری کی رفتار کا مقابلہ نہیں کرپائے گی اور ہم لوگ یونہی ’’گدھی گیڑے‘‘ میں پڑے رہیںگے اور بیس برس بعد بھی کوئی اسد عمر اسی طرح کا ریفارم پیکیج دے رہا ہوگا اور مجھ جیسا کوئی ہونق اسی طرح اس پر تبصرے میں مصروف ہوگا۔سب سے زیادہ حیریت ان ’’ آزاد‘‘ ماہرین اقتصادیات پر ہوتی ہے جو ملک کی اقتصادی صورت حال سے لے کر اس طرح کے منی بجٹوں کا تیاپانچا اور پوسٹ مارٹم تو خوب کرتے ہیں لیکن عوام اور حکام کو اس طرف متوجہ نہیں کرتے کہ ہم سب تمام تر نیک نیتی کے ساتھ الٹے بھی لٹک جائیں تو صورت حال میں کوئی واضح مثبت تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی۔موجودہ حکومت کی پہچان کیا ہے؟1۔ اینٹی کرپشن ڈرائیو۔2۔ احتساب ۔3۔ معیشت کی بحالی۔موجودہ رویوں، قوانین اور نام نہاد جمہوری روایات کی موجودگی میں کم از کم مجھے تویہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ قدم قدم پر تضادات کے انبار اور شہکار ہیں مثلاً اقتصادی مضبوطی پہلی ترجیح ہے، آبادی کی پروا نہیں۔رہ گئی کرپشن اور احتساب کی بات تو خود ان کے وزراء اس ’’جرم‘‘ کا برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ ’’ہم نے ایک نیب زادے کو پی اے سی کا چیئرمین بنا دیا۔‘‘….. یہ تو دیگ کے چند دانے ہیں حضور!اتنی بے خبری اور بے بسی کی موجودگی میں موجودہ حالات کو تبدیل ہوتے دیکھنے کے لئے جس ’’چشم بینا‘‘ کی ضرورت ہے، وہ کم از کم مجھے تو نصیب نہیں، جنہیں ہے انہیں مبارک ہو۔’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘لیکن صرف اتنا ضرور دیکھ لیں کہ ’’شجر‘‘ ہرا بھرا بھی ہے یا نہیں کیونکہ سوکھ چکے درختوں پر بہار نہیں آتی۔ جوہری تبدیلیوں کے بغیر گوہرمراد مل سکے تو مجھ سے زیادہ خوش کون ہوگا