تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
آخر سچی بات منہ سے نکل ہی جاتی ہے اور سچ کی خوبی یہ ہے کہ وہ آشکار ہو کر رہتا ہے اور حق کی یہ خوبی کہ اسے ہر صورت دیر یاسویرباطل کوشکست دینا ہی ہے اپوزشن لیڈر خورشید علی شاہ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کے خطاب کا جواب دیتے ہوئے مختصراً بتایا کہ ایک دوسرے کو چور کہتے رہنے سے شاید بات کہیں آگے نکل چکی ہے پانامہ لیکس میں جن ٹیکس چوروں ،بنک ڈکیتیاں کرکے مال اِدھر سے اُدھر بھیج کر آف شور کمپنیاں بنانے والوں کے نام گرامی آچکے ہیں ان کے بارے میںاب شاید کسی پارلیمانی کمیٹی ،انکوائری کمیشن کی ضرورت ہی نہیں رہی ببانگ دھل چور بھی چوری مان رہے ہیں اور مال بھی سارا جمع پڑا ہے ۔اور کتنا ہے وہ کمپنیوں کے اکائونٹس سے ظاہرہے حرام مال یہاں سے کیسے باہر پہنچا۔وہ قصہ تمام ہوا کہ چلا جو گیا۔اب تو یہ فکر لاحق ہے کہ یہ مال ومتال واپس کیسے آئے گا۔
فلیٹس اور فیکٹریاں تو بیرون ملک زمین پر موجود ہی ہیں تو پھر بھلا کہاں کی تفتیش اور کیسی تحقیق بابا یہ سب کہانیاں ہیں!قوم کو جس بات کی فکر کھائے جارہی ہے وہ یہ ہے کہ کہیں یہ سود پرست سرمایہ دار مال متال یعنی فیکٹریاں ،فلیٹس زرداری صاحب کے سرے محل کی طرح بیچ ہی نہ ڈالیں۔اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں یاد رکھیں کہ چونکہ سبھی بڑی پارٹیوں ن لیگ ،ق لیگ ،پی پی پی اور انصاف والوں کی ہائی اپ لیڈر شپ کے نام پانامہ لیکس کی تازہ فلم کے اداکاروں کے طور پر شو ہو گئے ہیں۔اس لیے اب دیر ہوگئی تو یہ خصوصی فلمی ڈرامہ فیل ہوتا ہی نہیں بلکہ مکمل فلاپ ہوتا نظر آتا ہے۔جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے بالآخر اس میں خود ہی گر کر رہتا ہے۔
دھوبی گھاٹ کھلا ہوا ہے ایک دوسرے کے کپڑے گندی نالی کے پانی سے دھوئے جارہے ہیںبلکہ ایک دوسرے کو سیاستدانوں نے الف ننگا کرڈالا ہے۔اس طرح یہ سبھی اس میں لازماً پھنس کر رہیں گے۔کہ جب خدائے عزوجل جزا و سزا دینا چاہیں تو خدائی فیصلہ لازماً نافذ ہو کر رہتا ہے۔دنیا پر یہ بات بالکل عیاں ہو چکی ہے اور پاکستانی عوام بھی دلی طور پر مطمئن ہو کر یقین کر چکے ہیں کہ ہمارے تقریباً سبھی بڑا کہلوانے والے لیڈران کرپشن میں ملوث ہی نہیں بلکہ کرپشن کنگز ہیں۔اور انہی کی اشیر باد سے ہی یہ گھنائونا کاروبار وسیع بنیادوں پر ملک کے اندر اور باہر رواں دواں بھی ہے ۔ بعنیہہ جیسے اگر متعلقہ تھانیدار نہ چاہے تو اس کے علاقے میں چوری ڈکیتی ،جواء اغوا ء برائے تاوان اور منشیات فروشی جیسے قبیع جرائم قطعاً نہیں ہو سکتے۔ہر صورت متعلقہ تھانہ کا ان وارداتوں میں حصہ بقدر جسہ ہوتا ہے تبھی یہ مکروہ کاروباررواں دواں رہتے ہیں۔
آخر چھوٹو گینگ کوئی جن بھوت یا زمین سے اگنے والا خودرو پودا نہیں تھا۔اسے متعلقہ پولیس افسران ،کرپٹ بیورو کریسی اور بااثر مقتدر افرادکی مکمل اشیر باد حاصل تھی تو ہی وہ وسیع پیمانے پر ریاست کے اندر ریاست قائم کیے بیٹھا تھا بلکہ انتظامیہ،پولیس اور متعلقہ بااثر سیاستدان اس کے ڈیرے کی سردائی عرصہ دراز سے پی بھی رہے تھے۔کبھی وکی لیکس کا غلغلہ تھااور آج پانامہ لیکس کا۔ہمارے ٹیکس چورکرپٹ افراد سرمایہ دارانہ اٹھکیلیاں کرتے دنیا و مافیا سے بے خبر ایک ہی حمام میں ننگے نہا رہے ہیں۔کرپشن کے یہ مسائل چند افراد کی پکڑ دھکڑ سے بھی حل نہیں ہو سکتے۔ گونگے نوں نہ مارو گونگے دی ماں نوں مارو جیہڑھی گونگے جمدی اے۔اس کے لیے اب بااثر سرمایہ داروں جاگیرداروں سود خور صنعتکاروں سے اقتدار کی کنجیاںچھین لی جائیں تو ہمہ قسم کرپشن مکمل ختم نہ ہوسکی تو 95فیصد ضرور ختم ہو جائے گی کہ کوئی شخص جرم کرتا ہی نہیں جب تک اسے اس بات کامکمل اطمینان نہ ہو کہ میں اس میں پکڑا نہیں جائوں گا اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو مجھے چھڑوانے والے بیسیوں موجود ہیں۔
میرا بال تک بھی بیکا نہ ہو گا۔مذکور بااثر افراد کو موجودہ سیاسی کھیل تماشہ سے باہر دفع دور کرڈالو کرپشن ،غنڈہ گردی بلکہ دہشت گردی بشمول معاشی دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز۔ کبوتر با کبوتر باز بہ باز کی طرح یہ سبھی کرپٹ افراد اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے منظم جتھے اور گروہ ہیں اور ان کی سرپرستی مقتدر افراد کرتے اور انھیں حکومتی شخصیات آسرا دیتی ہیں۔ان سبھی کے دوست احباب رشتہ دار بڑی پارٹیوں کے جرنیل و سرخیل ہیں۔
اس لیے یونہی سمجھیںکہ یہ سبھی مقتدر افراد ہی ہیںان سے اقتدار کی کنجیاں واپس لینا ظاہراً توجوئے شیر لانے کے متراد ف ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے جائز ناجائز طریقوں سے روپوں کے ڈھیر جمع کر لیے تو ہمیں انتخابات میں کوئی شکست نہیں دے سکتا مشہور ہے کہ جیدے گھردانے اودے کملے وی سیانے۔
احسن حل تو یہی ہے کہ ان مخصوص طبقات کے انتخابات میں حصہ لینے پر مکمل پابندی عائد ہو اور پانچ ایکڑسے زائد زمین کے مالک انتخابی عمل میں حصہ ہی نہ لے سکیں ۔متناسب نمائندگی بلحاظ تعداد آبادی کے مطابق نشستیں مخصوص ہوں ۔پسے ہوئے نچلے طبقوں کے افراد مزدور کسان محنت کش بھاری اکثریت سے منتخب ہو جائیں گے بشرطیکہ ان کی الیکشن مہم کے تمام اخراجات پمفلٹ پبلسٹی جلسے جلوس کا خرچہ حکومت اپنے ذمہ لے۔جو ملزم اب عیاں ہو چکے ہیں ان کو جلد از جلد مثالی سزائیں دی جائیں ان کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں قرق کی جائیں۔
اس لیے فوری طور پر ہر قسم کی رو رعایت کے بغیران معاشی دہشت گردوںکے مقدمات دیگر دہشت گردوں کی طرح فوجی ٹریبونلوں کے سپرد کیے جائیں تاکہ وہ جلد از جلد مال بھی برآمد کر لیویں یاد رہے کہ 12ارب ڈالر باہر جاچکے اور بیرونی قرضے 80لاکھ ڈالر کے ہیں۔ یہ توظاہراًایک دوسرے سے دست و گریباں رہیں گے نورا کشتیاں جاری رکھیں گے مگر تماش بینوں کو دکھانے کے لیے خوب ایک دوسرے کو ٹی وی ٹاک شوز میں الٹا سیدھا کرتے رہیں گے۔
میں پہلے بھی اپنی معروضات “ڈنڈا اور صرف ڈنڈا”کے نام سے واضح کر چکا ہوں اب اعادہ کرتے ہوئے گزارش ہے کہ پولیس نہیں تو پھر فوجی عدالتیں ہی انھیں پکڑ کر سزا دے سکتی ہیں کہ ان کا اصل علاج تو چوک ،چوارہوں پر ٹکٹکیاں باندھنا ہی ہے ۔یہ سبھی ملزمان اب کی بار کیفر کردار کو پہنچ گئے تو پھر دوسراایسی جرأت نہیں کرے گا اور ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بننے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری