تحریر : رانا اعجاز حسین
گزشتہ چند روز سے اپوزیشن جماعتوں اور صوبوں کے سربراہان کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری کے مجوزہ روٹ پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا ۔ جس پران کو اعتماد میں لینا اور ان کی تجاویز زیر غور لانا ضروری تھا۔ جس پر صوبائی حکومتوں کا مشاورتی اجلاس وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت منعقد ہوا،اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبوں کی مشاورت سے راہداری منصوبے کا مغربی روٹ جولائی 2018 تک مکمل کرلیا جائے گا،اورضرورت پڑنے پراس روٹ کے لئے فنڈزمیں 40 ارب روپے کااضافہ بھی کیا جائے گا۔ اجلاس کے دوران وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویزخٹک ، عوامی نیشنل پارٹی سمیت صوبے کی دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے شکوہ کیا کہ منصوبے سے متعلق وزیراعظم نے گزشتہ برس مغربی روٹ پہلے بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن رواں مالی سال کے بجٹ میں صرف مشرقی روٹ کے لیے رقم مختص کی گئی۔
جس پر وزیراعظم نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ باہمی مشاورت کے ساتھ ہی منصوبے کو مکمل کیا جائے گا جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اقتصادی راہداری منصوبے کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔اجلاس کے اعلامیئے کے مطابق اقتصادی راہداری منصوبے کا مغربی روٹ 4 رویہ ایکسپریس وے پرمشتمل ہوگا اورموٹروے کے حصول کے لئے زمین کی ذمہ داری خیبرپختونخواہ حکومت کی ہوگی، مغربی روٹ پرپہلے مرحلے میں 4 لین بنائی جائے گی اوربعد میں وفاقی حکومت کی جانب سے زمین کی خریداری کے بعد اسے 6 رویہ بنا دیا جائے جب کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اقتصادی اورصنعتی زون کے قیام پرصوبوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری سے پاکستان میں معاشی ترقی کے نئے باب کھلنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔پاکستان چائنہ اکنامک کو ریڈور منصوبہ دونوں ممالک کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ یہ منصوبہ جہاں پاکستان کی ترقی کا روڈ میپ ہے، وہاں چین کیلئے بھی اس اقتصادی راہداری کے ذریعے اپنی تجارت کو عرب ممالک اور مغربی دنیا تک پھیلانے سے اس کے عالمی سپر پاور بننے کی راہ ہموار ہوگی۔ پاکستانی سرحد سے متصل چین کا مغربی علاقہ چھ صوبوں اور پانچ خود مختار ریاستوں پر مشتمل ہے۔ مغربی چین کے ان علاقوں کی پسماندگی پاکستان کے مغربی علاقے فاٹا، خیبرپی کے اور بلوچستان جیسی تھی۔ 1978ء میں چین کے ان پسماندہ مغربی علاقوں کو ترقی دینے کیلئے ڈنگ جیاوپنگ نے ”گرینڈ ویسٹرن ڈیولپمنٹ اسٹریجٹی” کے نام سے طویل المعیاد منصوبے کا آغاز کیا۔
چین نے شنگھائی’ بیجنگ’ مشرق وسطی اور دیگر علاقوں کے صنعتکاروں کو بے تحاشہ مراعات دے کر ان مغربی علاقوں میں صنعتوں کا جال بچھادیا۔ چین کی جانب سے اپنے مغربی علاقے میں 37 سال قبل شروع کیا گیا ”گرینڈ و سیٹرن ڈیولپمنٹ اسٹریجٹی منصوبہ ”اپنی تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ چین کے مغربی علاقے پر مشتمل معاشی حب میں تیار ہونے والے مال کو عرب ممالک اور مغربی دنیا تک پہنچانے اور پھر ان صنعتوں کیلئے درکار خام مال لانے کیلئے روٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو چین نے اپنے دیرینہ دوست پاکستان کو منتخب کیا، کیونکہ کاشغر سے شنگھائی کا فاصلہ پانچ ہزار کلو میٹر ہے جبکہ گوادر سے کاشغر تک کا فاصلہ صرف دو ہزار کلو میٹر ہے۔ چین کی دور اندیش قیادت نے کئی سال قبل پاکستانی قیادت کو گوادر بندرگاہ اور کاشغر سے گوادر تک سڑک بنانے کی تجویز پیش کی۔
چین، افغانستان کے راستے وسط ایشیاکے ساتھ بھی تجارت کا خواہاں ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے مجوزہ روٹ کی لمبائی 2442 کلو میٹر ہے ۔ اس تاریخی اقتصادی راہداری کی تکمیل سے وسط ایشیائ، جنوب مشرق ایشیائ، مشرق وسطی کے ممالک کے درمیان تجارتی نقل و حمل کی ایسی زنجیروجودمیں آجائے گی جو یقینی طور پر پاکستان کو معاشی بلندیوں پر لے جائے گی۔ دہشت گردی اور بدامنی کا سبب بننے والے علاقے فاٹا، خیبر پی کے اور بلوچستان میں معاشی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس منصوبے پر 8 صنعتی زونز قائم کئے جائیں گے جو پاکستان کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے ۔ اور اس سے پاکستان کے جغرافیائی محل و قوع اور اسٹرٹیجک اہمیت میں اضافہ ہوگا۔
پاک چین اقتصادی راہدی منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت یہ منصوبہ عالمی سطح پر زیر بحث ہے۔ چینی صدر شی چن پنگ اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اس منصوبے کا افتتاح کیا تو پاکستان مخالف عناصر کی نیندیں اڑ گئیں۔ بلاشبہ پاکستان چائنہ اکنامک کو ریڈور منصوبہ کی تکمیل سے پاکستان معاشی استحکام حاصل کرکے ا یشیائن ٹائیگر بن سکتا ہے، یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، لیکن اس منصوبے کے افتتاح کے بعدسے دشمنان پاکستان کی نیندیں اڑ چکی ہیں ، دشمن ملکوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف مختلف پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں، کہیں پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں تو کہیں دشمن اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ایماء پر پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرکے ملک کے امن و سلامتی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ پاکستان چائنہ اکنامک کو ریڈور منصوبے میں تعطل آجائے اور کسی طرح یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچے۔
ماضی میں دشمنان پاکستان نے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو متنازع بنا کر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا، جس کا نتیجہ عوام پاکستان کو بد ترین انرجی بحران کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔پاکستان چائنہ اکنامک کو ریڈور منصوبہ میں حکومت پاکستان پہلے ہی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں سے وعدہ کرچکی ہے کہ اس عظیم الشان منصوبے سے چاروں صوبوں اور تمام علاقوں کے عوام کو مساوی ترقی کے مواقع میسر آئیں گے اور کوئی علاقہ اس کے ثمرات مستفید ہونے سے محروم نہیں رہے گا۔ بعض حلقے پاکستان کو شاہراہ ترقی پر گامزن ہونے سے روکنے کیلئے ایک بار پھر منفی عزائم کے ساتھ سامنے آگئے ہیں لیکن اس بار ترقی کا سفر روکنے والے عناصر کو ہمیں مل کر پسپاکرنا ہوگا۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں کو اقتصادی راہداری کے مساوی ثمرات میسر آئیں گے۔ اور کسی صوبے یا علاقے کو ترقی کی راہ سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ اب ہم سب کی زمہ داری ہے کہ ہمیں ملکر ملکی ترقی کے حامل اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق جنم لینے والی افواہوں کو رد کرنا ہوگا، ملک میں امن و سلامتی اور اقتصادی ترقی کی راہوں کو ہموار کرنا ہوگا۔
تب ہی پاکستان ایشین ٹائیگر بن پائے گا اور ملک کامزدور خوشحال ہوگا، کسان خوشحال ہوگا، پاکستان کو پوری دنیا کے ساتھ تجارت کے مواقع میسر آئیں گے، درآمدات برآمدات میں آسانی ہوگی، اور ملک میں خوشحالی کی فضاء قائم ہوگی۔
تحریر : رانا اعجاز حسین
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:0300-9230033