ہمارا ازلی دشمن بھارت ایک طرف پاکستان کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کروا کر پاکستانی معیشت اور سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچانے کے در پے ہے اور دوسری طرف اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے انتہائی سخت اور غیر معمولی فیصلے تیزی سے کر رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ٹیکسوں میں وصولی کے ہدف کو کم کرنے ، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کرنے اور طاقتور طبقوں کو مزید ناجائز مراعات دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے 8نومبر2016کو یہ اعلان کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا کہ نصف شب کے بعد پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ منسوخ ہو جائیں گے اور ایک مقررہ تاریخ کے بعد یہ نوٹ کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ہونگے۔ مودی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس فیصلے کے مقاصد میں بدعنوانی وکالے دھن پر قابو پانا اور جعلی کرنسی کی روک تھام کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے یہ شرانگیز الزام بھی لگایا کہ یہ نوٹ منسوخ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ایسے انتہا پسندوں سے نمٹا جائے جو بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں کراتے ہیں اور جن کی فنانسنگ سرحد پار کے دشمن بھارت کے جعلی کرنسی کے نوٹوں کے ذریعے کرتے ہیں۔
بھارت میں زیر گردش کرنسی نوٹوں کی مالیت 17540؍ ارب بھارتی روپے ہے جس میں سے تقریباً 85 فیصد یعنی تقریباً 15000؍ ارب بھارتی روپے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کی نوٹوں کی شکل میں ہیں۔ اس فیصلے سے جائز رقوم رکھنے والے کروڑوں بھارتی عوام عارضی طور یقیناً متاثر ہونگے لیکن کئی ہزار ارب روپے کا کالا دھن رکھنے والوں سے ٹیکس کی وصولی ممکن ہو گی۔ مودی نے کہا کہ پانچ سو اور ایک ہزار وپے کے کرنسی نوٹ ایک مقررہ تاریخ تک جمع کرانے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے اور جائز رقوم پر کوئی باز پرس نہیں ہو گی لیکن کالا دھن رکھنے والوں سے محکمہ انکم ٹیکس قانون کے مطابق نمٹے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے سے اگر چہ فوری طور پر بھارتی معیشت کو جھٹکا لگے گا لیکن جلد ہی جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی بڑھے گی اور معیشت مضبوط ہو گی۔ البتہ اس فیصلے سے کرپشن میں کمی ہونے کا امکان نہیں ہے جب کہ جعلی کرنسی کے ذریعے فنانسنگ روکنے کا شرانگیز بیان صرف پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
اب سے تقریباً 21 ؍ماہ قبل ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ:
(1)بھارت پاکستان میں اقتصادی دہشت گردی کرانے میں بھی ملوث ہوتا رہا ہے۔ یہ بات خاصے عرصے سے باعث تشویش رہی ہے کہ پاکستانی کرنسی کے جعلی نوٹ باہر سے تیار کرا کر افغانستان کے راستے پاکستان اسمگل کر کے دہشت گردوں کو فراہم کئے جاتے ہیں تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہیں۔
(2) موجودہ حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکس کے نظام کووسعت دے کر کالے دھن اور نقد رقوم کے استعمال کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
(3) اب وقت آگیا ہے کہ پانچ ہزار روپے کے نوٹ واپس لئے جائیں۔ جنگ 12فروری 2015۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے ان تجاویز پر عمل نہیں کیا۔ پاکستان میں پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ بھی گردش میں ہیں جو کہ دہشت گردوں کی فنانسنگ کے لئے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ہم گزشتہ 10برسوں سے پرائز بانڈز اسکیم کو واپس لینے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی پاکستان سے 8گنا ہے مگر اس کے زیر گردش نوٹوں کی مالیت پاکستان سے صرف 5گنا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وطن عزیز میں زیر گردش نوٹوں کی مالیت غیر ضروری حد تک زیادہ ہے کیونکہ ماضی کی حکومتیں بشمول فوجی حکومتیں اور موجودہ حکومت طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے معیشت کو دستاویزی بنانےمیں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
بھارتی حکومت نے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹوں کو منسوخ کرنے کے فیصلے کا اعلان اپنی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ختم ہونے کے 8دنوں کے اندر کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت ایممنسٹی حاصل کرنے کے لئے 45فیصد ٹیکس کی ادائیگی کی شرط رکھی گئی تھی۔ جس سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں 4.4؍ارب ڈالر کی اضافی آمدنی ہو گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں موجودہ حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی دینے کے لئے صرف دو فیصد ٹیکس کا مطالبہ کیا تھا لیکن یہ اسکیم ناکام ہو گئی کیونکہ قومی دولت لوٹنے والوں کو یقین ہے کہ ہر حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے اور ویسے بھی انکم ٹیکس آرڈیننس کی شکل میں ایک مستقل قانون جو کہ مالیاتی این آر او ہے ملک میں نافذ ہے جو کہ کالے دھن کو سفید بنانے کا آسان طریقہ ہے۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں اس بات کا اشارہ دیا کہ موجودہ مالی سال میں پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 6500؍ ارب روپے سے زیادہ ہونا چاہئے۔کچھ عرصے قبل ایف بی آر کے چیرمین نے کہا تھا کہ اگر صرف انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) ختم کر دی جائے تو پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کا حجم دگنا ہو سکتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات تکلیف دہ ہے کہ سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین نے ایف بی آر کے چیرمین سے 10نومبر 2016کو کہا کہ انہیں موجودہ مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی کا 3621؍ ارب روپے کا بڑا ہدف منظور ہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ چیئرمین ایف بی آر نے اس بات سے اتفاق کیا۔ ہم بحرحال ان ہی کالموں میں لکھتے رہے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کی موجودہ استعداد 8000؍ ارب روپے سالانہ ہے۔ یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ پاکستان کے سابق و موجودہ حکمرانوں، اشرافیہ اور ریاست کے تمام ستونوں اور دوسرے طاقتور طبقوں میں عملاً اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کے ناجائز مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہے اور عوام کو نچوڑا جاتا رہے۔
بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل حب میں 12نومبر2016کے بم دھماکے کے ہولناک سانحے کے بعد یہ بات ایک مرتبہ پھر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح دہشت گردی کی جنگ امریکی ایجنڈے کے مطابق صرف طاقت کے استعمال کے ذریعے لڑنے کے ضمن میں پرعزم ہے۔
یہ بات بھی کوئی راز نہیں کہ قبائلی بھائیوں کے دل و دماغ جیتنے اور انتہا پسندی پر قابو پانے کیلئے انسانی فلاح و بہبود کے ضمن میں اقدامات اٹھانے سے اسلئے اجتناب کیا جاتا رہا ہے کہ ان اصلاحی اقدامات کیلئے درکار مالی وسائل حاصل کرنے کیلئے ٹیکسوں کی چوری روکنا ہو گی۔ کالے دھن پر قابو پانا ہو گا، اب یہ انتہائی ضروری ہے کہ ان میں سے کچھ اقدامات کو نیشنل ایکشن پلان کا لازماً حصہ بنایا جائے جو ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی اجتماعی دانش کے تحت وضع کیا گیا ہے جس کیلئے کوئی بھی آمادہ نظر نہیں آرہا۔ اس وجہ سے قومی سلامتی اور معیشت کیلئے خطرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں لیکن اشرافیہ بدستور مزے میں ہے۔