تحریر:ثناء ناز
غریب شہر ترستا ہے ایک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
رنگا رنگ روشنیوں اور نت نئی ایجادات کیاس ترقی یافتہ دور میں بھی
تھر پارکر کا علاقہ پاکستانی تاریخ کا ایک تاریک اور پسماندہ منظر پیش کرتا ہیاس علاقے کی تاریخ کچھ یوں ہے۔۔صحرائے تھر جسے قیامِ پاکستان کے وقت دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ صحرائے تھر کا ایک حصہ بھارت کی ریاست راجھستان میں شامل ہو گیا جبکہ دوسرا حصہ پاکستان میں موجود ہے۔ بھارتی صحرائے تھر میں زیادہ تر ہندو اور پاکستانی صحرائے تھر میں ہندو اور مسلمان دونوں آباد ہیں، بھارتی صحرائے تھر میں مارواڑی زبان اور پاکستانی صحرائے تھر میں مارواڑی زبان کیساتھ ساتھ سندھی بھی بولی جاتی ہے۔جبکہ دونوں اطراف بسنے والیان تھریوں کا پہناوا ثقافت، رسم و رواج اور رہن سہن آج بھی صدیوں پرانے والے ہیں۔
ضلع تھرپاکر پاکستان کے صوبہ سندھ کا ایک ضلع جس کا بیشتر حصہ صحرائے تھر پر مشتمل ہیجبکہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں واقع ہیں۔کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزر کر بزریعہ کھو کھر آپار کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔۔ کسے خبر ہے بر صیغر کا سب سے پسماندہ علاقہ جس کی بنیادی کمزوری بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث معیشت اور وسائل کی کمی ہے اپنے دامن میں ٹنوں کوئلے کے وسیع ذخائر چھپائے ہوئے ہیں جس کے بارے میں بیشتر ماہرین کا کہنا ہے یہ کوئلہ نہ صرف تھر ، سندھ ،پاکستان بلکہ پورے بر صیغر کو سونے کا بنا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
۔1970کی دہائی تک تھر میں بارشیں تقریباً ہر سال ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن پچھلے دس سالوں میں موسمی تبدیلیوں کے رونما ہونے کے باعث ایک سال بارش ہوتی تو دوسرے سال پھر تھریوں کو قحط سالی کا سامنہ کرنا پڑتا۔۔یہ سلسہ گزشتہ چند سالوں سے یونہی چلا آ رہا تھا۔مگر جب مسلسل 3 برس صحرائے تھر میں بارش نہیں برسی تو تھریوں کو بری طرح قحط سالی نے آگھیرا۔یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑا مسلہ زندگی کی سب سے اہم ضرورت یعنی پانی ہے۔۔پانی کے حصول کے لیئے علاقے میں جگہ جگہ کنوئیں بنائے جاتے ہیں ان کنوؤں کی گہرائی 300 فٹ سے لیکر 500 فٹ تک ہوتی ہے۔بارشوں کا پانی ان کنوؤں میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔لوگ اونٹوں اور دیگر جانوروں کے ذر یعے یہاں سے پانی نکالتے ہیں۔ان کنوؤں سے نکالا گیا پانی بڑے بڑے مٹکوں کی صورت میں سنبھال لیا جاتا ہے۔
پانی کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کا دوسرا بڑا مسلہ آلودگی ہے۔ کنوئیں کا منہ ڈھکا نہ ہونے کے باعث مٹی اور کئی آلودہ ذرات پانی میں شامل ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کا پانی کڑوا اور گند لا ہو جاتا ہے جو نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی کئی مضر بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔:یہاں کے مقامی لوگوں کی کل دولت اْن کے مویشی ہوتے ہیں جو اناج اْگانے ، کنویں سے پانی نکالنے ، سفر کرنے اور دودھ دینے کے کام آتے ہیں۔تھریوں کی آب نوشی کا واحد ذریعہ بارش کا پانی ہے۔ جسے تالاب یا کنوؤں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
مقامی آبادی کئی مہنوں تک یہ پانی استعمال کرتے ہیں۔اور اگر آنے والے کچھ مہینوں میں بارشیں نہ برسیں تو تلاب خشک ہونے لگتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ مقامی لوگ پیاسا رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔تھر پار کے ہسپتالوں میں ناقص علاج اور دیگر ضروریات نہ ہونے کے باعث آلودگی اور قحط سالی سے متاثر ہونے والے بچوں کو فوری طور پر حیدرآباد منتقل کر دیا جاتا ہے جن میں سے اب تک کئی بچیبے درد موت کے منہ میں جا پہنچے ہیں۔ انسانیت کے ناتے۔تھر کے علاقے میں بسنے والے باشندے ہمارے اپنے بھائی ہیں قطرہ قطرہ پانی کو ترسنے والے بچے ہمارے اپنے بچے ہیں۔
نامور جہادی شاعرہ ہمیشہ بابری کیا خوب فرماتی ہیں
تھر کی آغوش میں فاقوں کا نوالہ بنکر
یہ تڑپتے ہوئے بچے نہیں دیکھے جاتے
اے خدا چھین لے بیناء میری آنکھوں کی
مجھ سے مرتے ہوئے بچے نہیں دیکھے جاتے
حضرت عمر فاروق فرماتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری بھی بھوکی مر گئی تو ان سے اس بارے میں یوم ِ حشر کے دن سوال کیا جائے گا۔افسوس یہاں انسان مر رہے ہیں گھر کے گھر اجڑ رہے ہیں۔بستیوں کی بستیاں سنسان ہو رہی ہیں۔مگر ہماری بے حسی ہنہوز بر قرار ہے سب کچھ جاننے کے باوجود بھی ہمارے حکمران آنکھوں پر اپنے مفاد کی پٹی باندھے بیٹھے ہیں۔اول تو غریب عوام کی مدد کوئی کرتا ہی نہیں اور اگر کوئی خدا ترس حکمران چند پیسوں کے عوض ان کے زخموں پر وقتی طور پر مرہم رکھ ہی دیتا ہے تو یہ بات بھول دیتا ہے کہ آیا یہ چند روپے آنے والے وقت میں ان بے کسوں کی ضرورت پوری کر بھی پائیں گے یا نہیں۔افسوس افراتفری کے اس دور میں یہ سب سوچنے کی فرصت کسے ہے۔
سانحہ پشاور جو دنیا کا المناک ترین سانحہ ہے جسکے رونما ہوتے ہی پوری دنیا اس درد و کرب سے چلا اٹھی حکومت نے بھی اس سانحہ کا گہرا اثر لیتے ہوئے ہنگامی طور پر بہت سے اقدامات نافذ کیے اور بہت سے اقدامات جاری کیے تاکہ آئندہ کبھی ایسی دہشت گردی کا سامنا نا کرنا پڑے جو کہ خوش آئند ہے مگر تھر پارکر جہاں روز کئی ننھی کلیاں آس و یاس کے جلتے بجھتے چراغ لیے مرجھا رہی ہیں جہاں روز کئی ننھی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں مگر افسوس کہ حکمران اس بارے میں سوچ تک بھی نہیں رہے ابھی تک حکومت کی جانب سے ان اموات کو روکنے کے لئے کوئی قابل زکر اقدامات نہیں کئے گئے
زرا سوچئے تھر پارکر کے باشندے بھی تو جینے چاہتے ہیں وہ بھی زندگی چاہتے ہیں مگر افسوس ہم اب تک خاموش ہیں خدارا وہاں اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں تازہ پانی کی سہولت فراہم کی جائے اور ہسپتالوں میں جدید طبی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کیا جائے۔بے روزگاری کے خاتمے کیلئے سولر پینل ، اسٹیم ٹربائین اور دیگر انڈسٹریز قائم کی جائیں۔تا کہ جتنی جلدی ممکن ہو تھرپاکر میں بڑھتی ہوئی غربت کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔
حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی وفات ہوئی تو انہوں نے آپ ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا میری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے کیا میں اسکے لیئے صدقہ کروں آپ نے فرمایا ہاں۔۔اس نے کہا کون سا صدقہ بہتر اور افضل ہے آپ نے فرمایا ‘پانی پلانا’۔۔اس روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امت ِ مسلمہ کے خیال کی ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں بلکہ پوری عوا م پر عائد ہوتی ہے۔تو چلو چل کر اپنا فرض نبھاتے ہیں آج اچھائی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہیں حالات کے ستائے ہوئے ان بے سہارا لوگوں کی ڈھلوان بنتے ہیں۔۔بوند بوند پانی کو ترستے ان لوگوں میں نئی زندگیاں بانٹٹے ہیں۔
تحریر:ثناء ناز