تحریر : ساجد حبیب میمن
آج کے دور میں عبدالستار ایدھی صاحب کسی فرشتہ نما انسان سے کم نہیں ہیں جنھوں نے کئی ادوار دیکھے اور ہر دور میں اس معاشرے کی بھرپور خدمت کرکے ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے ۔اس وقت پاکستان جس دور سے گزررہاہے ایسے میں پاکستان کو جنت نظیر ملک بنانے کے لیے مولانا عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات کی اس قوم کو بہت ضرورت ہے۔ایدھی صاحب نے اپنی کوششوں سے ہمیں یہ بتایا کہ اگر آپ انسانوں کی بلاتمیزنسل وزبان اور مذہب کے خدمت کرینگے تو اس میں نہ صرف اس دنیا میں عزت ملتی ہے بلکہ اللہ کی بارگاہ میں بھی اس کا اجر وثواب بہت زیادہ ملتاہے ۔مولانا عبدالستار ایدھی کی خدمات پر بہت سے لوگ اور سیاستدان ان کے لیے مختلف ایوارڈز دینے کی بات کرتے ہیں حالانکہ انہیں تین سو کے قریب ملکی اوربین الاقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں ان میں سے بہت سے ایوارڈز ایسے بھی ہیں جن سے دنیا ممالک کی عظیم شخصیات محروم رہی ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ ان کا سب سے بڑا ایوارڈیہ ہے کہ لوگ ان کی ایمانداری پر اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ بغیر کسی رسید کے ہی عبدالستار ایدھی کو چندہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی انسانی خدمت کی اس عظیم مہم میں کبھی حکومتوں کے سامنے اپنا دامن نہیں پھلایا ہے 1957سے انسانی خدمت کا سفر شروع کیا اورجنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے لیکر اب تک بہت سی حکومتوں کا ساتھ رہا مگر انسانی خدمت کے لیے ایک پائی بھی کسی حکومت سے لینا گوارا نہیں کیا بلکہ وہ جب بھی عوام کے پاس گئے وہاں انہیں ہمیشہ بھرپور اور مثبت جواب ملاہے، ان کی خود داری کا بھرم ہمیشہ اسی عوام کے ساتھ جڑا رہاہے جو عبدالستارایدھی کی صحت یابی کے لیے دن رات دعائیں مانگتی ہےکیونکہ پاکستان کی عوام اس مسیحا کوکسی بھی طور کھونا نہیں چاہتی جن کی خواہش ہے کہ مولانا صاحب تمام عمر اسی انداز میں دکھی اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کرتے رہیں ۔مولانا عبدالستار ایدھی اس وقت کئی یتیم خانے ، معذور افراد کی رہائش گاہیں ،بلڈ بنک ،پاگل خانے اور نہ جانے کس کس انداز میں مولانا صاحب اس قوم کی خدمت کررہے ہیں جس میں صاف دکھائی دیتاہے کہ مولانا صاحب کے ساتھ اللہ وحدانیت کی بھرپور طاقت موجود ہے جو انہیں اس قدر استقامت دے رہی ہے کہ وہ اس قدر بڑے نیٹ ورک کو بغیر کسی حکومتی سپورٹ کے چلارہے ہیں۔
یہ معاملات صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر کے بہت سے ممالک میں اسی انداز میں چل رہے ہیں وہ دنیا کے بے شمار ممالک میں انسانیت کی خدمت کررہے ہیں ان کی انسانیت کی خدمت کی ایک عمدہ مثال مجھے سننے کو ملی کہ بلوچستان کے گنجان آباد علاقے میں مولانا صاحب کوچند ڈاکوؤں نے پکڑ لیا اور جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ مولانا عبدالستار ایدھی صاحب تو انہیں اپنے کیے پر بہت شرمندگی ہوئی انہوں نے ایدھی صاحب سے بہت معافیاں مانگی اور انہیں رہا کرتے ہوئے دو کروڑ روپے کا چندہ بھی دیا۔
اللہ شاہد ہے یہ ایک فلاحی انسان کی خدمتوں کا بھرم ہے جس کی عزت شر پسند عناصر بھی کرتے ہیں ایسے میں ہمارے اعلیٰ سیاسی حکام میں سے کوئی پکڑا جاتا تو پوری قوم کے دکھوں کا بدلہ ایک گھنٹے میں ہی ان سے وصول کرلیاجاتا۔آج اس ملک کے ایوانوں کی تزین وآرائش اور وزیروں کے رہن سہن کے مقامات پر اربوں روپے لگادیئے جاتے ہیں مگر کوئی ایسا نہیں ہے جو اس غریب عوام کے جھونپڑوں کو ایک کمرے کی شکل میں بدل دے یہ ہی ایدھی ہزاروں بے سہاروں کا سہارا بناہواہے ،ان کے پاس کئی سو ایمبولینس ہیں جواس ملک کے سسکتے اور زخموں سے چور لاشوں کو اٹھارہی ہے ،بیمار اور لاچار لوگوں کو بروقت طبی امداد دینے میں ان کی مددکرہی ہیں۔مولانا صاحب نے اپنی تمام زندگی کارخیر میں وقف کیئے رکھی میں سمجھتاہوں کہ کئی صدیاں بیت جائیں گی مگر آپ کو ایسی بے مثال شخصیت ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی جس نے اس انداز میں ہزاروں لوگوں کی خدمت کی ہو ۔شہر قائد کی اونچی اونچی عمارتیں ،اس ملک میں بڑے بڑے محلات اور ہوائی جہازوں کے سفر ایدھی صاحب کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ان کے لیے ان کا ملک ہی سب کچھ ہے اسی میں اس کا گھر ہے اور یہی رہ کر وہ اپنا علاج کروانا پسند کرتے ہیں کیونکہ ایدھی صاحب جانتے ہیں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں اس کے لیے دعائیں مانگنے والی قوم موجود ہے جو اس کو چندہ دیتے وقت یہ نہیں پوچھتی کہ اس رقم کا وہ کیا کرینگے ان کی صداقت اور قدم قدم پر بنے انسانیت کی خدمت کے ادارے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایدھی صاحب کا سرمایہ کس کام میں صرف ہوتا ہے ،ان کے بدن کا لباس اور ٹھکانا اس قدر معمولی نوعیت کا ہے جسے دیکھ کر ان پر الزام لگانے والی ہر آنکھ شرماجائے ۔آج ان فلاحی اداروں میں رہنے والی بیواہ عورتیں یتیم اور مساکین سے کوئی پوچھے تو وہ بتائینگے کہ انہیں کبھی اپنے گھروں کی یاد نہیں آتی وہ ایدھی صاحب کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں ان کے ساتھ کام کرنے والا عملہ اور ان سے جڑا فرد خود بھی اپنی زات میں انسانیت کی خدمت سے سرشارہے۔مولانا کی انسانی خدمات میں مجبور اور بے کس افراد کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے وہ ہر مذہب کے فرد کے ذخموں پر مرھم رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی انسانی خدمات کا چرچہ بھی اسی انداز میں ہورہاہے بڑے بڑے ممالک کے سربراہ ان کا احترام کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جو مولانا عبدالستار ایدھی کی وجہ سے اس ملک کو ملی ہے کہ بہت سے ممالک پاکستان میں انسانیت کی خدمت کے اس جذبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم مولاناصاحب کی اس سوچ کو آگے لیکر چلیں اور دل کھول کر مولانا صاحب کی ایدھی فاؤنڈیشن کی مدد کریں تاکہ مولانا صاحب کا رفاع عامہ کا یہ پودا جو اسوقت ایک تناور درخت بن چکاہے اسی طرح پھلتا پھولتارہے اور یہ کہ انسانیت کی خدمت میں انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے ، کیونکہ ان کے فلاحی اداروں میں بے شمار انسانوں کا روزگار بھی چل رہاہے ۔قائرین کرام آج کل ان کی علالت خبریں آرہی ہیں ایسے میں ان کے چاہنے والے کروڑوں لوگوں کے دلوں سے دعا نکل رہی ہے کہ اللہ پاک ان کو صحت اور تندرستی عطافرمائے کیونکہ اس ملک کے گمشدہ بچوں ،لاوارث یتیم اور بے سہارا فراداکو ان کی بہت ضرورت ہے۔
تحریر : ساجد حبیب میمن