پیارے پاکستانیو اور انسانو،
مجھے جتنی بھی عزت و محبت ملی ہے وہ آپ لوگوں نے ہی بخشی۔ آپ سب نے مجھ پر جو اعتبار کیا اس کا شکریہ کس طرح ادا کروں مجھے خود بھی نہیں معلوم۔ میں جو کچھ تھا، جو کچھ بنا اور جو کچھ انسانیت کے فروغ کے لیے ممکن کر سکا، اگر اس سارے عمل میں میرا ساتھ آپ لوگ نہ دیتے تو میرا نشان ڈھونڈے بھی نہ ملتا۔
میں اپنا تعارف زیادہ نہیں کروانا چاہوں گا، میری زندگی میں زیادہ گوئی کی ویسے بھی بہت کمی رہی ہے۔ ہاں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اسی طرح فیصل کے کام کو سمجھیں اور انسانیت کی فلاح کی خاطر اس کی بھی ویسے ہی مدد کرتے رہیں گے جس طرح آپ نے انسانیت کی خدمت میں ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔
مجھے یاد نہیں کہ آخری بار کب میں اپنی زندگی یا ذات کے بارے میں آپ سے ہم کلام ہوا تھا۔ خیر اب جا کر تھوڑی فرصت ملی ہے اور آج میرا دن بھی ہے تو سوچا کہ میں خود اپنے بارے میں کچھ آپ کو بتا دوں۔
آج ہی کے دن یعنی 28 فروری کو میرا جنم “بنتوا” میں ہوا جو اس زمانے میں گجرات کی اک چھوٹی سی ریاست “بنتوا مناوڈر” کا حصہ تھا۔ ہمارے اس چھوٹے سے شہر کی آبادی کا زیادہ تر حصہ میمن برادری پر مشتمل تھا۔ پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد وہاں سے بڑی تعداد میں ہجرت ہوئی۔ ان مہاجرین میں اپنا نام بھی آتا ہے۔
ہاں جناب میں میمن، میمن بانٹوا ہی ہوں، شاید کم لوگوں کو اس کا علم ہو۔ پر صرف شجرے کی حد تک۔ میں اگر کچھ ہوں یا بقول آپ کے “تھا” تو صرف انسان، انسانیت ہی میری قوم، ذات، قبیلہ اور شجرہ تھا۔ میری زندگی ان سب رسمی باتوں سے بالاتر گزری یا میں نے گزاری، خیر جو بھی ہو یہ انسانیت پسندی کا جذبہ اور احساس بہت تسکین بخش ہے، نہ جانے میرے پاکستانی کب سمجھیں گے۔
پڑھیے: وہ میٹھادر کا باپو، عبدالستار ایدھی
میری نظر میں انسانیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں اور اس سے بڑا بھلا کون سا عقیدہ ہوگا۔ میں نے زندگی میں انسان کی فلاح اور خدمت کو بلاتفریق اہمیت دی، میرے آنگن میں کھیلنے والے، میری ایمبولینسوں میں موجود مریض اور دیگر ایدھی مراکز میں موجود مرد و خواتین نہ جانے کس ذات پات، دین و دھرم کے تھے. میرے لیے تو وہ بس پسے مشکل پڑے انسان تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ جس نے مجھے ان تفریقات سے دور رکھا۔ سوچ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ آخر عقائد، قبائل اور مذاہب سے پیدا ہونے والے تعصبات کس طرح قتل و غارت گری کی نہج تک پہنچ جاتے ہیں۔ عقائد سانس نہیں لیتے بلکہ اس سے جڑا انسان سانس لیتا ہے بیٹا۔بچپن میں جب اسکول کو نکلتا تو میری ماں مجھے دو ٹکا ہاتھ میں تھما دیتی۔ وہ بولتی “ایک تیرا ہے اور ایک کسی ایسے بچے پر خرچ کر دینا جو اس کا صحیح حقدار ہو۔” اکثر ایسا ہوتا کہ دونوں ٹکے میں خود ہی ہضم کر جاتا۔ امی پوچھے تو بول دیتا کہ خود پر ہی خرچ کر دیے، وہ بولتی “ابھی سے دوسروں کے حق پر ہاتھ ڈالنا سیکھ لیا ہے آگے ارادہ کیا کرنے کا رکھتے ہو۔”میں تو فقیر ہوں، مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں۔ ایسے بھی تھے چند جو مجھے “ملنگ” بلاتے۔ کوئی کچھ بھی کہتا میں اسے بسم اللہ کرتا۔ میں نے ہمیشہ انسان کو صرف “انسان” سمجھنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں ہر بری بھلی چیز میں تفریق سمجھانے کے لیے زمین و آسمان ایک کیے جاتے مگر کسی نے ہمیں “انسانیت” کو سمجھانے کی کھل کر کبھی ہمت ہی نہ کی یا شاید کرنے ہی نہیں دی گئی۔
مجھے مریضوں سے محبت تھی اور اس سے کہیں زیادہ ان کے لیے ایمبولینس چلانے سے۔ 41 سال کا تجربہ اور ایمبولینس کے علاوہ آج تک کسی دوسری گاڑی میں نہیں بیٹھا ہوں۔ اگر ایسا کہوں کہ کوئی دوسری گاڑی مجھے جچی ہی نہیں تو وہ بھی غلط نہیں ہوگا۔
مجھے ننھے منے بچوں سے بھی اسی طرح کا لگاؤ ہے جس طرح بلقیس کی کوکھ سے پیدا ہوئی اولاد سے ہے۔ 375 سینٹر ہیں اپنے۔ سب کے باہر جھولے رکھے ہیں۔ اگر کسی مجبوری سے یا کوئی اور ہی وجہ سے اپنا بچہ چھوڑ کر جا سکتا ہے بھلے ہندو ہو یا مسلمان، امیر ہو یا غریب۔ اس سے کوئی سوال نہیں کرے گا۔ سوال ہو بھی تو کیوں کر؟ مذہب یا طبقہ جو بھی ہو، تھے تو انسان ہی ناں۔
کچھ “علماء حق” (جو فقط اپنے ہی حق میں تھے) مجھے کافر، حرامیت کو فروغ دینے والا اور نہ جانے کیا کیا میرے بارے میں بولتے رہے، میں نے ان کی فضول باتوں کو سمجھنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے فلاحی کاموں کو جاری رکھا۔
پڑھیے: ’’ایدھی، چلے جاؤ یہاں سے، ورنہ گولی لگ جائے گی‘‘
میرا قصور اتنا تھا میرے بھائیو، کہ میں نے ان معصوم جانوں کو اپنی نظر اور خدا کی امان میں رکھا۔ ان سارے بچوں کو یہاں اپنے پاس تعلیم بھی دی جاتی اور وہ ہر چیز مہیا کی جاتی جو ضرورت کی ہو۔ ایک بار اک بچے نے مجھ سے کہا کہ” بابا، میں بڑا ہوکر ڈاکٹر بنوں گا تا کہ اپنے بابا کی طرح لوگوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کروں۔”کوئی دن ایسا نہ گزرا جب 8 سے 10 نوجوان کمسن عورتیں میرے پاس نہ پہنچی ہوں۔ گھر سے ناراض ہو کر یا بیشتر تو ایسی بھی ہوتیں جن کو گھر سے معمولی باتوں پر نکال پھینک دیا جاتا۔ کچھ تو اپنے ہمراہ بچے بھی لے کر آتیں۔ ہم نے کسی کو انکار نہیں کیا۔
انسانیت کے بارے میں میری سوچ یا نظریے کے حوالے سے بھی بہت باتیں کی گئیں بالکل اسی طرح جیسے ہر اس انسان کے بارے میں کی جاتی ہیں جو کسی کے کام آ جائے۔ میں نے کوئی زیادہ علم تو حاصل نہیں کیا، لیکن میری نظر سے ‘گورکی’ اور ‘کارل مارکس’ ضرور گزرے ہیں۔ ان لوگوں کے قریب سب سے زیادہ اہم چیز دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ ہے انسان سے محبت اور انسان کا دوسرے انسان پر استحصال سے نفرت ہے۔
ہمارا معاشرہ اندر سے کھوکھلا بن چکا ہے۔ لوگ پڑھ لکھ کر سوٹ اور ٹائی تو پہننا سیکھ گئے، مگر ان پڑھے لکھوں کو تعلیم یہ دی گئی کہ لوگوں کا استحصال کیسے کیا جائے، کس طرح سے انہیں لوٹا جائے۔ جو سکھایا نہ گیا وہ یہ کہ ‘انسان’ کیسے بنتا ہے اور انسان کی قدر و قیمت کیا ہے۔اک سچا انسان بننے کے لیے ڈگریاں درکار نہیں ہوتیں بس جذبہ انسانیت، احساس اور جدوجہد درکار ہوتی ہے۔آج میں اُس جہاں میں بھی خوش بیٹھا ہوں، اس لیے کہ جو بویا تھا وہ اب کاٹ رہا ہوں۔
فقط آپ کا ایدھی۔