تحریر: سید انور محمود
عام طور پر یہی سمجھاجاتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی صرف غربت، افلاس اور جہالت سے پیدا شدہ یاس و ناامیدی کا نتیجہ ہے لیکن دہشت گردی اور انتہاپسندی کے معاملے میں یہ سوچ غلط تھی اور غلط ثابت ہورہی ہے۔ امریکہ میں ہوئے نو گیارہ کے سانحے کو چودہ سال ہونے کو ہیں اور دہشت گردی کی اس کارروائی میں شامل تمام دہشت گرد تعلیم یافتہ تھے۔ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان میں بھی یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان دہشت گردی اورانتہاپسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔
جس کی ایک تازہ مثال اٹھارہ اگست کی صبح ڈھائی بجے حساس اداروں، رینجرز اور محکمہ انسداد دہشت گردی کی گلشن اقبال کے علاقے 13 ڈی میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہے۔ کارروائی کے دوران دو دہشت گرد ہلاک ہوئے جن میں سے ایک عبدالاحد الیکٹریکل انجینئر تھا اور سیکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عبدالاحد القاعدہ کے عسکری ونگ کاکراچی میں اہم کمانڈر تھا۔ عبدالاحد کیڈٹ کالج پٹارو میں زیر تعلیم رہا ۔ کیڈٹ کالج پٹارو سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے جامشورو میں واقع مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا اور 2007-08 میں وہاں سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
چوبیس اپریل کو کراچی میں معروف سماجی کارکن سبین محمود کو نامعلوم مسلح افراد نے گولی مارکر قتل کر دیا، جبکہ اس حملے میں اُن کی والدہ زخمی ہوئی تھیں۔ نامعلوم مسلح افراد نے سبین محمود کو اُس وقت نشانہ بنایا جب وہ جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے بلوچ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم ماما قدیر کے ساتھ ایک نشست کے بعد اپنی والدہ کے ہمراہ جارہی تھیں۔ سبین محمود کو اس سے قبل دھمکیاں موصول ہوتی رہی تھیں جن میں طالبان کی جانب سے ملنے والی دھمکیاں بھی تھیں۔
13 مئی 2015ء کو کراچی میں اسماعیلی برادری کے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ کراچی میں صفورہ چورنگی کے قریب ہونے والی دہشت گردی بلوچستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کے انداز میں کی گئی۔ اس دہشت گردی میں شقی القلب حملہ آوروں نے صرف چند منٹ میں اسماعیلی برادری کے معصوم اور بے ضرر لوگوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ اس حملے میں بیس سے ستر برس کی عمر کے 46 افراد جاں بحق ہوئے جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 20 مئی کو ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ سانحہ صفورا اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں ایک ہی گروہ ملوث ہے جس کے منصوبہ ساز سمیت چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق یہ ملزمان کراچی کے مختلف علاقوں میں واقع اسکولوں کے باہر بم پھینکنے میں بھی ملوث تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ملزمان نے رینجرز حکام اور نیوی کے اہلکاروں پر بھی حملے کیے۔ سانحہ صفورا کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ بہت سے خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ رپورٹ میں ایسے دہشت گردوں کی تفصیلات موجود ہیں جن میں معتبر تعلیمی اداروں سے انجینئرنگ اور دیگر شعبوں کی ڈگری لینے والوں کے علاوہ آئی ای ڈی بنانے کے ماہرتعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل تھے۔
ان میں سے بیشتر افراد اب بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ سانحہ صفورا کی تحقیقات میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل نوجوان دہشت گردی کے طرف مائل ہورہے ہیں ۔ سانحہ صفورا کے اہم ملزم سعد عزیز نے 2005ء میں بیکن ہاوس گلشن اقبال برانچ سے او لیول کیا۔ دی لائی سیئم کلفٹن سے 2007ء میں اے لیول کیا۔ 2007ء سے 2011ء تک پاکستان کے معتبر تعلیمی ادارے آئی بی اے سے بی بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ سانحہ صفورا کے دیگر ملزمان بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے؛ حافظ ناصر نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز، اظہر عشرت نے سرسید یونیورسٹی سے الیکٹرونکس میں بی ای جبکہ اسد الرحمان نے کراچی یونیورسٹی سے بی کام کیا ہوا ہے۔
بے گناہ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے دہشت گردوں سے دوران تفیش برآمد ہونے والے موبائل فونز میں جدید ترین سافٹ ویئر ٹاک رے انسٹال تھیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ملزموں نے باہمی رابطوں کے سراغ سے بچنے کیلئے ٹاک رے کے استعمال کا اعتراف بھی کر لیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق اس جدید ترین ایپلی کیشن کی مدد سے موبائل فون کو واکی ٹاکی میں بدلا جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ اسپیڈ کم ہو تو بھی ٹاک رے بہترین نتائج دیتا ہے۔ بات کرنے والے کا محل وقوع بھی ظاہر نہیں ہوتا تاہم پاکستان میں اس کا استعمال عام نہیں۔ گرفتار ملزموں نے دوران تفتیش حملے کی ویڈیو ریکارڈنگ کا انکشاف بھی کیا۔ پولیس کے مطابق ملزموں نے اپنی موٹر سائیکلوں میں پستول چھپانے کیلئے سیٹوں کے نیچے خصوصی خانے بنا رکھے تھے اسی وجہ سے پکڑے نہیں گئے۔
شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو دہشت گردی کا ایندھن بنا کر استعمال کر رہی ہیں ۔ خود کش حملوں کے لیے معصوم نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے اُن کو جنت کے خواب دکھا کر انہیں اپنی اور دوسروں کی جان لینے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اس فساد کا بیج بویا جاچکا ہے۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور حتیٰ کہ سکولوں میں مخصوص نصاب کے ذریعے ایسی ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو معاشرے میں شدت پسندی کو ترویج دینے کا باعث بن رہی ہے۔ اور ایسا اسلامی تعلیم اور تبلیغ کے نام پر کیا جارہا ہے۔
اسلام کا اصل چہرہ لوگوں کو دکھانے اور رواداری اور برداشت کو معاشرے میں فروغ دینے کے بجائے انتہا پسندی کو جنم دیا گیا ہے۔ ہمارا میڈیا اس انتہا پسندی کو کچھ اس طرح گلیمرائز کرکے دکھا تا ہے کہ جیسے کوئی بہت عظیم کارنامہ سرانجام دیا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کس طرح دہشت گردی کی طرف مائل ہورہے ہیں، تعلیمی اداروں میں نصاب سمیت کون سے ایسے عوامل ہیں جو ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پہلے دین کی طرف راغب کرتے ہیں اور پھر انہیں شدت پسند ی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں فعال دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ایسے گروہ جن کے دہشتگردتنظیموں سے رابطہ ہیں اُنہیں فوری گرفت میں لیا جائے ۔
پاکستان ایک عرصہ سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہر روز دھماکے، قتل، ظلم، دہشت اور بربریت کی نئی کہانی رقم ہوتی رہی۔ ہماری ایک نسل اس جنگ کے دوران پیدا ہوئی اور ایک اسی دوران جوان ہوئی ہم یہ تو کہتے ہیں کہ آج کا بچہ شدت پسند ہے لیکن کیوں، اس لیے کہ وہ اپنے معاشرے میں تشدد دیکھتا ہے اور شدت پسند کو آزاد بھی دیکھتا ہے۔ آج کا نوجوان یہ دیکھتا ہے کہ اگر وہ گرفتار کر لیا جاتا ہے تو عدالتیں انہیں سزا نہیں سناتیں اور سزا سنا دی جائے تو اُس پر عمل نہیں کیا جاتا اور یوں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے جس میں مجرم خوف محسوس نہیں کرتا۔ ان حالات کو بدلنے کے لئے زبردست سیاسی قوت عمل کی ضرورت ہے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ موجودہ دور میں ایسی کوئی طاقت نظر نہیں آتی، جس کے پاس اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار قوت عمل اور عز م وحوصلہ موجود ہو۔
تحریر: سید انور محمود