معلمی پیشہ انبیاء اکرام کا پیشہ ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں حضورۖ کو معلم کہا۔ اور خود سرکار دوجہاںۖ نے فرمایا۔ بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ مگر اب بدقسمتی سے یہ پیشہ زوال پذیری کی جانب رواں دواں ہے کسی بھی معاشرے میں معلم انسان کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار کرتا ہے اور تاکہ وہ معاشرے کا فرض شناس فرد بن جائے جس پر ملک اور معاشرہ فخر کر سکے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کہ اس جدید دور میں معلم اس پیغمبری پیشے سے مخلص نہیں۔۔۔ اس جدید دور میں معلم اپنے پیشے سے مخلص نہیں۔۔۔
جگہ جگہ کھلے پرائیویٹ اسکولز اس بات کاعملی نمونہ ہے ان اسکولز کے مالکان کا مقصد بچوّں کی درس و تدریس کی بجائے اپنا کاروبار چمکانا ہے یہ نام نہاد اسکولز انگلش میڈیم کے نام پے والدین کی کھال ادھیڑتے ہیں ان اسکولز میں امتحانات کے دنوں میں بچوں سے امتحانی فیس کے نام سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔۔۔
جب کوئی والدین اپنے بچوّں کا داخلہ کرواتے ہیں تو اس وقت اس بات کے لئے پابند کر دئیے جاتے ہیں کہ وہ یونیفارم اور کتب ان کی اپنی بک شاپ اور یونیفارم شاپ سے خریدیں اور اگر کوئی طالب علم نئی جماعت میں داخل ہونے کیبعد کتب اور کاپیاں وغیرہ باہر سے خریدتا ہے تو طالب علم کو اس کاپیوں پر کام لکھنے سے روک دیا جاتا ہے اور تو اور یہ نام نہاداسکولز سکینڈری امتحانات میں طالب علموں کو نقل مہیا کرتے ہیں تا کہ رزلٹ نہ خراب ہوجائے۔ ان پرائیویٹ اسکولز میں تعلیمی معیار نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان پرائیویٹ اسکولز کے اساتذہ میٹرک پاس اور انہی اسکولز کی سابقہ طلباء ہوتی ہیں ان پرائیویٹ اسکولز میں میڈم کی سیٹ بھی کم عمر اورغیر تربیت یافتہ خاتون کو دی جاتی ہے۔۔۔
ان پرایئویٹ اسکولز کا تعلیمی معیار کے علاوہ اخلاقی معیار بھی گراوٹ کا شکار ہے پرنسپل اور میڈم’ پرنسپل اور ٹیچر’ میل ٹیچر اور فی میل ٹیچر کے افیئرز بھی اکثر خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔