تحریر : محمد ارشد قریشی
آج کل ایک لفظ تقریبا روز ہی کہیں نہ کہیں سنائی دیتا ہے کہ جناب میڈیا کا دور ہے اور نظر بھی کچھ ایسا ہی آتا ہے کہ یہ ہے ہی صرف میڈیا کا دور جیسے ہی ٹی وی آن کرکے ریموٹ ہاتھ میں تھاما اب سمجھ ہی نہیں آتا کہ کس چینل پر ٹہرا جائے کسی دیکھا جائے کسے چھوڑا جائے بس ادھر ادھر چینلز تبدیل کرنے میں ہی کافی ٹائم گذر جاتا ہے کیبل پر ملکی اور غیر ملکی چینلز کی یلغار سے نظر آتی ہے انٹرٹینمٹ ، خبروں، اسلامی چینلز، ملکی اور غیر ملکی فلموں، ڈراموں، موسیقی ، بزنس اور کھیلوں کے سینکڑوں چینلز کی بھرمار ہے کہیں کہیں تو ایک چینل کے کئی مزید چینلز ہیں۔
میں اکثر اوقات اپنے میڈیا سے منسلک دوستوں سے یہ ذکر کرتا ہوں کہ جناب یہ کیا ماجرہ ہے کہ مجھے تو ان سینکڑوں چینلز کے ہونے کے باوجود اب بھی کچھ تشنگی سی محسوس ہوتی ہے تو مجھے برجستہ جواب ملتا ہے کہ جناب چینلز پر وہی آتا ہے جو پبلک دیکھنا چاہتی ہے جب ان سے یہ سوال کروں کہ کیا میں یا میری سوچ سے مطابقت رکھنے والے دوسرے لوگ پبلک نہیں ہیں کیونکہ وہ نہ ہی دیکھایا جاتا ہے نہ ہی سنایا جاتا ہے جو مجھ جیسے بہت سے دوسرے لوگ دیکھنا یا سننا چاہتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ جناب آپ کی تشنگی ختم ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ چینل خود ہی شروع کردیں ! کاش میرے پاس اتنے وسائل ہوتے تو میں نہ صرف اپنی تشنگی ختم کرلیتا بلکہ کروڑوں لوگوں کو بھی سیراب کردیتا۔
آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ میں بات کررہا ہوں ٹی وی کی اور ساتھ میں ذکر کررہا ہوں سننے کا تو یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں لوگ ٹی وی صرف سنتے ہیں یعنی ان کی بصارت سے محروم ہوتے ہیں میں نے ایک مرتبہ نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز صاحب کا ایک انٹریو سنا جس میں ان سے ان کے مشہور جملے کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ پروگرام کے شروع میں کہتے ہیں کہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام قبول ہو ایسا کیوں تو انھوں نے جواب میں کہا کہ انھیں کئی ایسے لوگوں کے پیغام ملتے تھے جو بصارت سے محروم تھے لیکن میرا پروگرام شوق سے سنتے تھے ان کا شکوہ تھا کہ ہم آپ کا پروگرام سنتے ہیں لیکن آپ ہمیں سلام نہیں کرتے اس لیئے میں نے یہ جملہ بولنا شروع کیا۔
اس حوالے کے بعد آتے ہیں اصل موضوع پر کہ مجھے ان چینلوں کی دنیا میں کوئی بھی تعلیمی چینلز نظر نہیں آتے اگر کوئی ایک آدھ نظر آتا ہے تو اس کا کسی قسم کا بھی تعلق ہمارے نظام تعلیم سے نہیں ہوتا مطلب یوں کہہ لیں کہ کوئی ملکی تعلیمی چینل نہیں ہے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اس کے لیئے نہ صرف حکومت کو سوچنا ہوگا بلکہ تمام ٹی وی چینل مالکان اور سرمایہ داروں کو بھی سوچنا ہوگا یہ بہت اچھی بات ہے کہ سیاسی اور جمہوری پارٹیوں کے مطالبے پر اگر حکومت اسکول ، کالج اور یونیورسٹی نہیں بنواتی تو کوئی سرمایہ دار آگے بڑھ کر اس کار خیر کا ذمہ خود اٹھالیتا ہے یہ اچھی روایت ہی لیکن اگر اسی طرح تعلیمی چینلز کے لیئے بھی سوچا جائے تو اس کے نہ صرف ہمارے تعلیمی نظام پر مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہونگے بلکہ شرح خواندگی کے بڑھنے میں بھی مددگار ثابت ہونگے۔
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایک سیمینار میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ آبادی والے اس ملک میں تقریباً 60 فیصد نوجوان ہیں جنِ کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں جبکہ 18 سے 29 سال کی عمر والے 5 کروڑ نوجوانوں میں 55 فیصد شہروں میں رہتے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوان تقریباً 58 سے 60 فیصد ہیں۔ اسِ ضمن میں شاید ایک مفروضہ یہ پیش کیا جائے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی تعداد، بالخصوص شہروں میں رہنے والے نوجوان، ٹیلی ویژن کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر وقت بتانے کو ترجیح دیتی ہے، لیکن پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (پی ڈی ایچ ایس) کی ایک ریسرچ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 87 فیصد گھروں میں ٹیلی ویژن جبکہ صرف 17 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔
دنیا بھر میں تعلیمی چینلز براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشنز کے توسّط سے پیش کیے جاتے ہیں یا پھر پرائیوٹ یونیورسٹیاں مقامی اور ادارتی سطح پر ایسے چینلز نشر کر رہی ہیں تعلیمی معاونت کے علاوہ تعلیمی چینلز پر ایسے نوجوانوں کو جو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کے خواہش مند ہیں اور وقت کی قلّت یا وسائل کی کمیابی کے باعث اسِ خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، مختلف ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسز بھی سکھائے جا سکتے ہیں تاکہ وہ خود کفیل ہو سکیں اور اپنا بھر پور کردار پوری مستعدی کے ساتھ نبھا سکیں۔
چینلز کی آن لائن اسٹریمنگ، لائیو اور دوبارہ ٹیلی کاسٹ، اور پروگرام کے دوران لائیو کالز کی سہولت ایک پروگرام کو بآسانی الیکٹرونک کلاس روم میں تبدیل کر سکتی ہے، نیز طلباء کے لیے ایسے پروگرامز سے بوقتِ ضرورت استفادے کو بھی ممکن بنا سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے لیے بھی یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوسکتا ہے جہاں وہ اپنی تعلیمی سہولتوں کی نہ صرف مناسب تشہیر کر سکیں گے بلکہ طلباء کے لیے بہتر گائیڈنس بھی فراہم کر سکیں گے۔
اگر آج پاکستان کے کسی بھی شہر میں حالات خراب ہوں تو طلباء تیزی سے چینل بدلتے نظر آتے ہیں کہ کل تعلیمی ادارے کھلیں گے کہ نہیں یا پھر امتحانات ہونگے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اگر اس میڈیا کے دور میں کوئی ایک تعلیمی چینل شروع کردیا جائے جس میں صرف اور صرف تعلیم اور تعلیمی اداروں سے متعلق خبریں اور پروگرام نشر کیئے جائیں۔
طلباء کی تعلیم کے بارے میں تعلیمی ماہرین کے ذریعہ رہنمائی کرائی جائے دنیا کے تعلیمی اداروں میں پاکستانی طلباء کے لیئے اسکالرشپ کے طریقہ کار سے آگاہی دی جائے تو یقینی طور پر ایسا چینل طلباء کے لیئے بہت سود مند ثابت ہوگا اور میں سمجھتا ہوں ایسا تعلیمی چینل شروع ہونے کے بعد ہر تعلیمی ادارہ اپنے طالبعلموں کی آگاہی کے لیئے اپنے تمام اعلانات ان چینل کے ذریعے نشر کرے گا جس سے طلباء کا ایک بڑا مسعلہ حل ہوجائیگا اور شائید اسی پبلک میں سے لاتعداد لوگ میری طرح ایسا چینل دیکھنے کے خواہش مند ہونگے۔
تحریر : محمد ارشد قریشی