تحریر : فرح قادر ملک
کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس ملک کے تعلیم یافتہ معاشرے پر منحصر ہے اور وہ ممالک جن کی ترجیح تعلیمی شعبہ ہو تا ہے ترقی کی دوڑ میں آگے ہوتے ہیں ۔سوچنے کی بات ہے کیا ہمارا نظام تعلیم جدید دنیا کے ہم آہنگ ہے ۔ بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہم مغربی ممالک کی نسبت تعلیم کے شعبہ میں بہت پیچھے ہیں اگرچہ ترقی کی جانب جانے والے ہر مرحلہ میں ہی ہم ان سے پست ہیں لیکن تعلیمی حوالے سے صورتحال کچھ زیادہ ہی خرا ب ہے۔
اگرچہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں دور رس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے لیکن ایک کام جو آسانی سے کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ تعلیم کے سلسلہ میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے کیونکہ جب پاکستانی طالب علم ہنر مند ہوں گے تو وہ سرکاری ملازمت پر ہی تکیہ نہیں کریں گے بلکہ اپنے ہنر کے بل بوتے پر معاشی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
حکومت کو میٹرک تک تعلیم نہ صرف مفت کرنی چاہیے بلکہ طالب علموں کے تعلیم پر اٹھنے والے دیگر اخراجات کی ذمہ داری بھی لینی چاہیے ۔غریب آدمی پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر اپنی اولاد کو محنت مزدوری کرنے بھیج دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بچوں کو سکول بھیجنے سے گریزاں ہے ۔ دوسری جانب سکولوں کی حالت زار بھی باعث تشویش ہے ۔ خستہ حال عمارتیں کسی وقت بھی زمین بوس ہونے کو تیار ہیں۔
ان حالات میں والدین بچوں کو سکول بھیج کر دعا گو ہی رہتے ہیں کہ ہر دم خیر ہو ۔ کیونکہ ہمارے سرکاری سکول بنیادی ضرورتوں سے قطعی محروم ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا رویہ بھی مثالی نہیں بلکہ کافی حد تک منفی ہوتا ہے ۔ وہ بچوں کو پیار محبت سے پڑھانے کے بجائے ڈانٹ ڈپٹ اور سختی سے کام لیتے ہیں جس سے بچے سکول جانے سے کتراتے ہیں ۔لہٰذا اساتذہ کی ٹریننگ کابھی جدید خطوط پر انتظام کرنا چاہیے تاکہ اساتذہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر بچوں کو تعلیم دیں اور مروجہ تعلیمی اصلاحات سے متعارف ہو کر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔
علاوہ ازیں حکومت کو چاہیے سکولوں اور کالجوں کے لائبریری فنڈ میں خاطر خواہ اضافہ کرے اور سائنسی مضامین کی تدریس کے لیے جدید مشینوں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔تاکہ وطن عزیز میں نامور سائنسدان اور انجنیر پیدا ہوں جس سے ملکی ترقی اور ہمارے ملک کے وقار میں اضافہ ہو ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ موجودہ تعلیمی بجٹ کو دگنا کر دے ۔ اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ معاشی طو پرر آزاد ہو کر بہتر طور پر بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ دے سکیں اور ایک ایسا ماحول تشکیل پا سکے جس میں استاد اور شاگرد ذہنی بوجھ سے آزاد درس و تدریس کے سلسلہ کو جاری رکھ سکیں۔
آئے روز اساتذہ کو اپنی تنخواہوں میں اضافہ کے لیے ہڑتال کرنا پڑتی ہے جس سے طلبا و طالبات کی تعلیم متاثر ہوتی ہے جبکہ حکومت ان کے جائز مطالبات ماننے کی بجائے ان پر لاٹھی چارج کرتی ہے ۔ ایسی صورت میں کیسے ممکن ہے کہ تعلیم کے لیے ایک صحت مند ماحول ترتیب پا سکے اور اساتذہ یکسوئی سے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھ سکیں۔
حکومت کو اپنے طرز عمل کو بدلنا ہو گا تعلیم کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا ۔ اساتذہ جو بچوں کے مستقبل کی ضمانت ہیں ان پر لاٹھی چارج کرنے کی بجائے ان کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا کیونکہ جو قومیں اپنے اساتذہ کو عزت نہیں دیتیں دنیا میں ان کو کبھی بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ والدین جو غریب ہیں بچوں کے اخراجا ت نہیں اٹھا سکتے ان کی مالی معاونت کا بھی کوئی بندوبست کریں تا کہ وہ اپنی گزر بسر کرنے کے لیے بچوں کو ورکشاپوں اور دکانوں پر نہ بھیجیں بلکہ ان کو سکول کی راہ دکھائیں۔
اگر حکومت تعلیمی میدان کی جانب ترجیحی نگاہ مرکوز کر لے اور اس شعبہ کی بہتری کے لیے منظم اقدامات کر لے تو تبھی پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اور دوسری قوموں کے شانہ بشانہ اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اور اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کی ہر شعبہ ہائے زندگی کی حالت ناگفتہ بہ ہی رہے گی کیونکہ کسی بھی ملک کی تعلیمی پستی اس کے قومی وقار کو زک پہنچاتی ہے اور قومی ترقی و خوشحالی اک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔
تحریر : فرح قادر ملک