تحریر۔ ریاض جاذب
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا۔ 21صدی میں تعلیم کی اہمیت پہلے کی نسبت زیادہ تسلیم کی جا رہی ہے۔ آج کی زندگی مین تعلیم ایک اقتصادی مسئلہ بھی ہے۔ آج کے ترقیاتی دور میں تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ تعلیم انسان کو اپنی صلاحیت پہچانے اور ان کی بہترسے بہتر تربیت کرنے میں معاون ثابت و مدد گار ہوتی ہے تقیناً تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہترمعاشرے اور ایک ترقی یافتہ ملک و قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ہمارا ملک اور ہمارے معاشرے ک ترقی اگر نہیں ہوسکی تو اس میں سب سے بڑی وجہ بھی ہمارا تعلیم میدان میں بہت پیچھے رہ جانا ہے۔بدقسمتی سے تعلیم کے میدان میں پاکستان دنیا کے کئی ممالک سے پیچھے ہے کیونکہ یہاں لوگوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اورسہولتیں نا کافی ہیں۔2014 کے سروے کے مطابق پاکستان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح تقریباَ 58فیصد ہے اور سروے سے مزید یہ معلوم ہوا کہ دیہی علاقوں کی نسبت شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کافی زیادہ ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خواندگی کی شرح میں فرق کی کافی ساری وجوہات ہیں جیسے دیہی علاقوں میں سرکاری اداروں کی کم تعداد، تعلیمی سہولتوں کا فقدان وغیرہ۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح مزید بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پڑھی لکھی قوم ہی ملک کی ترقی میں اہم کردارادا کر سکتی ہے۔ خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنے کی ایک اوبڑی وجہ روزگار کے بڑھتے ہوئے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہے کیونکہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کربیٹھنے کی بجائے بہتر مستقبل کی تلاش میں مصروف ہو جائیں گے اور جلد ہی اپنی منزلوں تک پہنچ جائیں گے کیونکہ ایک پڑھا لکھا انسان اپنے روزگار سائل پیدا کرسکتا ہے۔پوری دنیا میں خواندگی کی شرح اگردیکھی جائے تو یورپی ممالک میں شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی خواندگی کی شرح 74فیصد ہے جبکہ چین کی شرح خواندگی 93 ہے جو پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں تعلیمی مسئلہ آج ا نہیں بلکہ ملکی قیام کے وقت سے چلا آرہا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں شرح خواندگی کو دیکھا جائے توراولپنڈی کے قریب واہ کینٹ(ٹیکسلا) سب سے آگے ہے،دوسرے نمبرپراسلام آباد ہے جس کی شرح خواندگی 87 فیصد ہے جبکہ84فیصد شرح خواندگی کے ساتھ لاہور کاتیسرا نمبرہے۔اسی طرح پنجاب میںسب سے کم شرح کے حامل شہر جنوبی پنجاب کے ہیں نیچے سے پہلے نمبر پر راجنپور اور دوسرے نمبر پر ڈیرہ غازیخان اور تیسرے نمبر پر لیہ ہے۔پاکستان میں تعلیمی فقدان کی ایک بڑی وجہ نااہل انتظامیہ ہے جن میں جعلی ڈگریوں والے ہمارے نمائندے بھی شامل ہیں جنہوں نے ملک کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزارت تعلیم کا عہدہ جعلی ڈگری شخص کودیا گیا، ایک جعلی ڈگر والا شخص تعلیم میں کیسے بہتری لائے گا۔ وزراء اپنی مراعات اور پروٹوکول کے لیے تو اسمبلیوں میں بل پاس کرالیتے ہیں مگر تعلیمی اصطلاحات میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جارہا۔ دانش اسکول ہی کی مثال ہے ۔جس پراربوں روپے لاگت آئی مگریہ ایک خاص علاقے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا حالانکہ سرکاری تعلیمی ادارے پورے پاکستان میں موجود ہیں مگر انہیں اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ توانتہائی فضول عمل ہے کہ پہلے سے موجود تعلیمی اداروں پرتوجہ دینے کے بجائے مزید نئی عمارتیں بنانا شروع کردیا جائے اوراربوں روپے خرچ کر کے بھی فائدہ صرف خاص ریجن کو ہو جہاں دانش اسکول واقع ہیں۔ پاکستان میں تعلیم ایک رخ یہ بھی ہے کہ سرکاری اسکولوں کی چھت تک نہیں اورطلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبورہیں۔ بدقسمتی سے تعلیم جیسے حساس شعبے کو بھی مقامی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے ایسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں جو آئندہ نسل کو غیروں کا غلام بنادیں گی۔ قائد اعظم نظام ِ تعلیم کی اہمیت اور موثریت سے آگاہ تھے یہی وجہ تھی کی ان کی ہدایت پر پاکستان کے قیام کے فوراََ بعد 1947میں ایجو کیشن کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انہوں نے نظام ِ تعلیم کی تشکیل کے لئے واضح ہدایات جاری کیں اور وطن عزیز کے لئے نظام ِ تعلیم کے بنیادی خدو خال وضع کر دیے۔بدقسمتی سے قائدِ اعظم اس دنیا فانی سے جلد کوچ کر گئے اور بعد میں تعلیمی نظام کے پالیسی سازوں میں لارڈ کس قدر وابستگی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے لوگ مطالعہ کواپنا شوق بنائیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کوجدید سہولیات سے آراستہ کرے جس سے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بہتر اورآسان مواقع حاصل ہوں۔آخر میں عوام سے گذارش ہے کی وہ اپنے خلاف ہونے والی تعلیمی سازش کو سمجھیں اور اپنی اولاد کے اچھے مستقبل کی خاطر جدو جہد کریں اور ارباب اختیار سے بھی گذارش کہ خدا سے ڈریں۔ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کریں۔ ہر طبقے کو بلا تفریق رنگ و نسل علم حاصل کرنے کے یکساں مواقع مہیا کئے جائیں۔ عوامی نمائندوں اور سرکاری ملازمین پر لازم کیا جائے کہ ان کے بچے صرف ملکی سرکاری تعلیمی ادارواں میں تعلیم حاصل کریں گے۔ جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اپنی ملازمت اور عوامی نمائندگی سے محروم ہو جائے گا۔ پھر دیکھنا نظام اور نصاب کس طرح اور کتنی جلدی ایک ہوتے ہیں اور تعلیم کے لیے فنڈ بھی آ جائیں گے۔اساتذہ کو معاشرے میں قابل عزت مقام دیا جائے اور انہیں معاشی فکروں سے آزاد کیا جائے۔ ہم نے مغرب سے جمہوریت تو سیکھ لی ہے تعلیم کی اہمیت نہیں سیکھی۔ اساتذہ کا مقام بھی ان سے سیکھ لیتے۔اساتذہ کو جدید زمانے کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے لئے وقتاََ فوقتاََ مناسب ٹریننگ دی جائے۔ اور یوں نظام تعلیم کو موثر کرکے اور معیار تعلیم کو بلند کرکے دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جائے ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں