تحریر : معاذ عبد اللہ
”آپ امریکہ کو صرف ڈرون حملوں کے حوالے سے جانتے ہیں یاپھر آپ نے امریکہ کے بارے میں یہ سنا ہوگا وہ مسلمانوں کے خلاف ہے،اس کاکام مسلمانوں سے جنگیں لڑنااورانہیں دہشت گردقرار دے کرقتل کرنا ہے،اس نے عافیہ صدیقی کوغیرقانونی طورپر گرفتار کرکے اس پرمظالم کی انتہاکردی، یہاں تک کہ عالم اسلام کے خلاف ہونے والے ہراقدام کو”امریکی سازش” قرار دے دیاجاتاہے۔ ہمارے اس پروگرام کامقصد آپ کو امریکہ اور امریکی عوام کی خوبصورتی سے متعارف کراناہے۔ آپ کو اس بات کایقین دلانا ہے کہ امریکہ کاتعارف صرف جنگیں نہیں،بلکہ وہ ایک خوبصورت تہذیب کاعلمبردار ہے، جدید تعلیم ،خوشحال زندگی، مہذب لوگ اور مساوات اس تہذیب کے ماتھے کاجھومرہیں۔” یہ الفاظ راقم نے اپنی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک تقریب میں سنے۔ یہ تقریب یونیورسٹی کے طلبا کویوایس ایڈ(US-AID) کے ”کلچرل ایکسچینج” پروگرام اور” فل برائٹ سکالرشپ” سے متعارف کروانے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں خاتون مقرر نے طلباکے سامنے امریکہ کا ”سافٹ امیج” پیش کرنے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہ تقریب لاہور میں موجود امریکی قونصل خانے نے منعقد کروائی ۔دوپٹے سے بے نیاز،میک اپ سے اٹی ہوئی اور امریکی لہجے میں فرفرانگریزی بولتی خاتون نے بھرپورطور پریہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امریکہ جانا اور وہاں کا”کلچر” سیکھنا ہر طالب علم کے لیے اتناہی ضروری ہے جتناکہ دمے کے مریض کے لیے ”اِن ہیلر” ۔ گویا ”جنے امریکہ نئیں ویکھیا او جمیاای نئیں…!”
ساتھ بیٹھے ایک دوست نے حیرانی سے پوچھا کہ یاریہ کیسی خاتون ہے کہ درجنوں افراد کے درمیان دوپٹے کے بغیر ٹہل رہی ہے؟(بے چارہ کوئی پینڈوہوگا)۔ فدوی کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ ”یا رسیدھی سی بات ہے ،یہ”کلچرل ایکسچینج” کی خوبصورت مثال ہی توہے جس کے لیے یہ تقریب منعقد کی گئی ، یعنی امریکیوں کے کلچر میں دوپٹہ نہیں ہوتااور یہ محترمہ جب کلچرل ایکسچینج کے لیے امریکہ دوپٹالے کرگئی ہوں گی تواپنا کلچر (دوپٹہ) انہیں دے دیاہوگااوران کاکلچر (بے پردگی) لے لیا ہوگا۔یہی توہے”کلچرل ایکسچینج” کبھی آپ نے غورکیاکہ ترقی پذیر ممالک کے طلبا پرمغربی ممالک کی طرف سے تعلیمی وظائف کی بوچھاڑ کیوں کی جاتی ہے؟حالانکہ انہی ممالک کے ساتھ یہ لوگ جنگ پرآمادہ رہتے ہیں، ان کے وسائل پرقبضہ کرکے انھیں غربت وافلاس میں دھکیلے رکھنے کے ذمہ دار یہ بڑے سرمایہ دارممالک ہی ہیں۔ بدترین حکمرانوں کو اپنے مفادات کے لیے سہارا دینے والے ان ممالک کو کیا واقعی عوام کااحساس ہوتاہے؟ تواس کاجواب ہے نہیں!دنیابھر میں اپنی تہذیب کو غالب کرکے ذہین افراد سمیت تمام وسائل پرقبضہ کرنا ، ان کا اصل منشاہے۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے چنیدہ طالب علموں کوتعلیمی وظائف کے نام پر اپنے ممالک میں بلا کر تہذیبی غلام بنایاجاتاہے،یہی طالب علم واپس جاکر اپنے ملکوں میں مغربی تہذیب کاعلم بلند کرتے ہیں کیونکہ اپنی تہذیب وروایات انہیں فرسودہ لگتی ہیں۔
اس سلسلے میں باقی دنیا کی نسبت عالم اسلام میں ان طاقتوں کو لارڈمیکالے فیم نظام تعلیم کے نفاذ نے بھی خاطر خواہ کامیابی نہ دی،اگرچہ مسلم معاشروں میں ان کی ”محنت” کاکچھ حدتک اثرہوا بھی ۔ 23اپریل1999ء میں برلن میں”اسلام اور مغرب کے تعلقات” کے نام سے ایک کانفرنس ہوئی جس کے آخر میں ”عالمی وحدت، عالمی اشتراک،عالمی اتحاد” کانعرہ ایجادکیاگیا۔اس اعلان کا مقصد عالم اسلام کو مغربی تہذیب سے روشناس کرواناتھا تاکہ پوری دنیامیں”ایک تہذیب” کے نفاذ کی راہ ہموار کی جاسکے۔ایسی تہذیب جو جمہوریت ،انسانی اقدار، خواتین کے حقوق اور بچوں کے حقوق جیسے نعروں سے مزین ہولیکن اس کی بنیاد ظالم سرمایہ دارانہ نظام اور سیکولرزم(لادینیت) پرہو،جبکہ اس کے نتائج شکم وشہوت پرست یک رخا معاشرہ پیدا کرنا جس کی پوری زندگی آمدنی، دولت،قوت اوراقتدار جیسے بتوں کی پوجا میں گزرجائے۔ ایک ایسامعاشرہ جوفکرِ آخرت سے نابلد ہو لیکن سارے کاسارا زور دنیاوی زندگی کے عیش وعشرت کمانے پرہو ایسے نظام تعلیم کے بارے میں اقبال نے کہاتھا: مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و خام ایسے بے ربط خیالات کے حامل لوگ مسلم معاشروں میں جابجاموجود ہیں۔ جن سے انسانی حقوق کی بات کرو تواقوام متحدہ کاچارٹرتوانہیں ازبرہوتا ہے لیکن خطبہ حجة الوداع میں دقیانوسیت نظرآتی ہے۔ اللہ کے قرآن اور رسول اللہeکے فرمان سے یہ ناآشنا ہوتے ہیں۔ مسلم دنیاکومغربی تہذیب سکھانے کے لیے، جن کی60فیصدآبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے،بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ پیش کی جس کی اہم سفارشات درج ذیل ہیں: ٭… این جی اوزمیں کام کرنے والے خواتین و حضرات کی اکثریت لبرل اورسیکولر افراد پرمشتمل ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلم دنیامیں اپناایجنڈا پھیلانے کے لیے ان اداروں کو فنڈنگ مہیاکی جائے۔ ٭…نجی نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ اس صورت میں یہ ادارے آپ کی مرضی کا نصاب پڑھائیں گے۔وجہ یہ ہے ”منہ جس کاکھاتاہے،آنکھ اس سے شرماتی ہے” کے مصداق فنڈنگ حاصل کرنے والے یہ ادارے ایسا کرنے پرمجبور ہوں گے۔ ٭…غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا بیرون ملک تعلیم کے لیے کو زیادہ سے زیادہ وظائف دیے جائیں تاکہ وہ اپنے ممالک واپس جاکر الحادی نظریات کوفروغ دے سکیں۔ ٭…مدارس کارستہ روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں کیونکہ ان کانصاب انتہاپسندانہ نظریات پرمبنی ہے۔
اگرچہ آغاز میں صرف نجی اداروں کو ہدف بنایاگیا لیکن9/11 کے بعد پاکستان میں ”روشن خیال” حکومت کے قیام کے بعدسرکاری سکولوں کو بھی امریکی امداد US- AID ملنے لگی۔ اب ”پاکستانی اورامریکی عوام مل کربنائیں گے نیاپاکستان” کانعرہ تقریباً ہرسرکاری سکول کی دیواروں پرنظرآتاہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں پر غیرملکی امداد کے آنے کے بعد گزشتہ چند سالوں میں درج ذیل اقدامات کیے گئے : ٭…لڑکوں کے سرکاری سکولوں میں خواتین اساتذہ کو بھرتی کیاگیاجس کاکوئی جوازنظرنہیں آتا۔ ٭…تعلیمی نصاب سے اسلامی مضامین نکالنے کی متعدد بار کوشش کی گئی جسے عوام کے احتجاج نے ناکام بنادیا۔ تعلیمی وظائف کی مد میں کیے جانے والے اقدامات درج ذیل ہیں۔ ٭…میٹرک کے بعد نجی تعلیمی ادارہ100طلبا کو مفت داخلہ دیتاہے۔ یادرہے کہ یہ تعلیمی ادارے کوئی خیراتی ادارے نہیں بلکہ یہ خالص تجارتی مقاصدکے لیے بنائے جاتے ہیں،چونکہ ان کو مختلف NGO’sپیسہ مہیاکرتی ہیںلہٰذا یہ کچھ بچوں کومفت تعلیم دے کرفنڈز وصول کرتے ہیں۔ بدلے میں الوداعی پارٹیوں ،ویلکم پارٹیوں، ثقافتی پروگراموں اورموسیقی کے پروگراموں کی صورت نسل نو میں فحاشی والحاد داخل کرنے کی خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں۔ ٭…NGO’s اورغیر سرکاری تعلیمی اداروں کو فنڈ دینے کے لیے50سے زائد ممالک کے سفارت خانوں میں محکمہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں بیرون ملک تعلیمی وظائف کی بات کریں تویہ وظائف تین طریقوں سے دیے جاتے ہیں۔
-1 براہِ راست بیرونی یونیورسٹی کی طرف سے ۔
-2 ہائیرایجوکیشن کمیشن پاکستان(HEC)کے ذریعے۔
-3 پاکستان میں موجودبیرونی یونیورسٹیوں کے رجسٹرڈ نمائندہ اداروں کے ذریعے۔
ہرتین طریقوں سے دیے جانے والے وظائف کاایک ہی مقصد ہوتاہے لیکن ہم یہاں صرف ایچ ای سی (HEC) کے ذریعے بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی وظائف پانے والے طلباکاذکر کریں گے کیونکہ یہ وظائف حکومتی نگرانی میں دیے جاتے ہیں۔
پاکستانی طلباکوHECکے ذریعے دیے جانے والے نمایاں وظائف درج ذیل ہیں۔
1- Youth Culturel Exchange Programme
2- Full Bright Scholarships
3- Common Wealth Scholarships
پاکستان میں ایچ ای سی کے قیام سے پہلے کل PHD افراد کی تعداد تقریباً 2ہزار تھی۔بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے بعد اب یہ تعداد 10ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ایچ ای سی نے ان طلباکو بھیجتے ہوئے جو اہداف پیش نظر رکھے تھے وہ درج ذیل ہیں۔ ٭… یہ طلبا جدیدمغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم پانے کے بعد پاکستان واپس آئیں گے توان کے حاصل شدہ تجربے سے مقامی طلبا مستفید ہوسکیں گے اورہمارا نظام جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیاجاسکے گا۔ ٭… مغربی یونیورسٹیوں سے مہارت حاصل کرنے والے طلباواپس آکر جدید سائنسی لیبارٹریاں بنائیں گے جس سے ملک میں عالمی سطح کی تحقیق (Research) کی جا سکے گی۔جس سے ملک سائنسی طورپر خود کفیل ہوسکے گا۔ ٭… اعلیٰ قابلیت رکھنے والے سٹاف کی وجہ سے ملکی یونیورسٹیاں عالمی درجہ بندی میں نمایاں مقام حاصل کر سکیں گی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا مقاصد میں سے ایک بھی پورانہ ہوسکابلکہ: ٭… بیرون ملک جانے والے ذہین طلبا کی اکثریت نے ملک میں واپس آنابھی گوارہ نہیں کیا۔حالانکہ معاہدے کے تحت وہ اس بات کے پابندتھے،بلکہ انہی ممالک میں قیام پذیر ہوکریا تووہاں پڑھانا شروع کردیا یاملازمت اختیار کرلی گویا:
غنی روزِ سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیداش کند چشم زلیخارا
”غنی تو کنعان کے بزرگ شخص کی بدقسمتی دیکھ کہ اس کی آنکھوں کانور زلیخا کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گیا” ٭… وہ طلبا جو مغربی ممالک میں اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آئے،وہ پوری طرح مغربی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔(الاماشاء اللہ)راقم کو اس بات کا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ ایسے اساتذہ کے لیے”آئیڈیل” اور ”رول ماڈل” مغرب ہی ہے۔ اسلام تودور کی بات انہیں پاکستان کی مقامی ثقافت میں بھی سوکیڑے نظرآتے ہیں ۔حتّٰی کہ ڈیپارٹمنٹ میں واش روم کی مثال بھی دینی ہو تو مغرب کی یاد ستانے لگتی ہے۔ باوجودیکہ صفائی ایمان کاحصہ ہے۔ ایک استاد نے ”مذہب بمقابلہ ریاست” جیسے مضامین لکھ کر تمام خرابیوں کی جڑ اسلام کوقرار دیا۔ علاوہ ازیں ان کا یہ اعتراض بھی ہوتاہے کہ مسلمانوں نے دنیا کی سائنسی ترقی میں کوئی حصہ نہیں ڈالا، یہ سب تومغرب کی مرہون منت ہے جبکہ مولوی نے تو لوگوں کوسائنس سے دور رکھا۔اقبال نے ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بارے میں ہی کہاتھا: ہم سمجھتے تھے لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ اب پہلی بات کہ وہ اساتذہ جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں کے ہوکررہ جاتے ہیں،واپس کیوں نہیں آتے؟ تواس کاجواب یہ ہے کہ جب آپ ان کو کارپوریٹ کلچر(سرمایہ دارانہ نظام) کے تحت تعلیم دیں گے تو انہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہیں سوجھے گابلکہ ہروقت اپنی ذات کاسوچنے والے(Status Conscious)یہ لوگ صرف پیسے کے بارے میں سوچیں گے جوکہ ظاہر ہے انہیں مغرب میں ہی میسر ہے، لہٰذا وہ واپس نہیں آتے۔ “Status Consiousness” ایسی بیماری ہے کہ آخرت کی فکربھی بھلا دیتی ہے۔حالانکہ نبیe نے فرمایاتھا کہ ”جوبندہ اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر علم حاصل نہیں کرتا اور نہ ہی اسے پھیلاتاہے مگر دنیاوی فائدے کے لیے وہ روزِ جزا جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔”(نسائی) دوسری بات یہ ہے کہ ان مسلمان سائنسدانوں سے جو ہروقت اسلام اور مسلمانوں میں کیڑے نکالتے نظر آتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مسلمانوں کاسائنس میں کوئی حصہ نہیں،
پوچھناچاہیے کہ آپ مسلمان ہیں توآپ سائنس میں حصہ کیوں نہیں ڈال لیتے؟ آپ کوئی نئی دریافت کرکے اسلام کو سربلند کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟لیکن مرعوبیت ایسی بلاہے کہ انسان کی صلاحیتوں کو پنپنے کاموقع ہی نہیں دیتی اوریہ بے چارے اسلام اور مغرب کے درمیان ہی پھنسے رہتے ہیں کہ پہچان تواسلام ہے مگرجان مغرب میں! خدا ہی ملا نہ وصال صنم ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے آخرمیں عرض یہ ہے کہ ترقی کی منازل طے کرنی ہیں توخودداری اس کی پہلی سیڑھی ہے۔ مرعوبیت مغرب سے ملنے والے راتب کے ذریعے جاں بلب امت کو مزید بیمار توکرسکتی ہیں مگر صحت افزوں ترقی کی راہ سے کوسوں دور رکھے گی۔ اسلام زندگی کے ہرمیدان میں دینی ودنیاوی ترقی کی شاہراہ پرہاتھ پھیلائے ہمارا منتظر ہے،اسے تھام لیجیے۔ مسلمان کاکلچر صرف اسلام ہے۔ علم حاصل کرنا دینی فریضہ ہے مگر مغربی اقدار سیکھنامسلمانوں پرواجب نہیں۔ لہٰذا تعلیم کے نام پرکلچر”ایکسچینج” کرنے کے بجائے اپنا کلچر ”ڈونیٹ” کیاجاناچاہیے ۔تاکہ پوری دنیانہ صرف سائنسی بلکہ اخلاقی ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکے۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ ملک کے نوجوانوں کواپنے ملک میں ہی معیاری اسلامی اور سائنسی تعلیم مہیا کریں اور ہربات میں مغرب کی تقلید کی روش ترک کی جائے۔ ورنہ کرسمس،نیوائیر اور ویلنٹائن ڈے توسب کویادرہے گا،نپولین کی بہادری اور سکندراعظم کی عظمت کے گن توسب گائیںگے، لیکن فاروق اعظمt کی حکمت اورحیدرکرارt کی شجاعت کے تذکرے اس قوم کے نوجوانوں کو اجنبی محسوس ہوں گے۔
مغربی مکتبوں کی نئی روشنی،تیری تاریکیوں کا ازالہ نہیں
طاقِ دل میں اجالا اگر چاہیے، تو پرانے چراغوں سے ہی پیارکر
تحریر : معاذ عبد اللہ