ڈاکٹر منظور اعجاز
طبقاتی معاشرے کی سرشت ہے کہ اس میں معاشی، سیاسی اور سماجی وسائل کی تقسیم ناہموار اور غیر منصفانہ ہوتی ہے۔پاکستانی معاشرے میں طبقاتی صورت حال کی حالت ناگفتہ بہ ہے: امیر اور غریب کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ ایسی صورت حال میں تعلیم ہی ایک ذریعہ ہے جس سے پسے ہوئے طبقوں کے افراد اپنی حالت بدل سکتے ہیںاور اپنی طبقاتی درجے بندی سے باہر نکل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار معاشروں میں بنیادی تعلیم کا نظام ریاست کی ذمہ داری ہے :ریاست بنیادی تعلیم مفت فراہم کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ معیار تعلیم بھی ملک بھر میں یکساں ہو۔ اس طرح سے یہ معاشرے زندگی کی دوڑ میں ہر فرد کو یکساںمواقع فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں صنعتی اور تجارتی انقلاب پرانے زرعی سماج کو ہر پہلو سے اتھل پتھل کر رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستانی ریاست پرانے طرز پیداوار (جاگیرداری)کی عکاسی کرتی ہے اور وہ نئے ابھرنے والے معاشرے کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کی ترتیب نو ہوجوکہ آج کے پیچیدہ معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ تعلیمی نظام کم از کم تمام شہریوں کو اگر یکساں نظام تعلیم فراہم نہیں کر سکتا تو کم از کم یکساں معیار تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کرے۔
پاکستان میں جب تک غالب طرز پیداواری زرعی تھا تو ریاست اپنی تماتر نا اہلیوں کے باوجود ایک ایسا نظام تعلیم فراہم کر رہی تھی جس میں کسی حد تک مختلف طبقات کے افراد کو یکساں مواقع میسر تھے۔ اگرچہ دیہی اور شہری علاقوں میں تعلیم کی فراہمی میں بہت بعد تھا اور اسکولوں اور کالجوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن اس کے باوجود کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر طبقے کے لوگ پہلو بہ پہلو تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس زمانے میں تعلیمی نظام اعلیٰ اہلیت کے حامل طلباء اور طالبات کو معاشرے میں کلیدی کردارادا کرنے کے لئے تیار کرتا تھا۔ مثلاً اعلیٰ نوکر شاہی اور سیاسی ایلیٹ ریاست کے قائم کردہ اداروں سے ہی تعلیم حاصل کرتی تھی۔ ہر شہر اور قصبے میں گورنمنٹ اسکول اور کالج مختلف طبقوں کو تعلیم فراہم کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھاکہ اعلی ٰدرجے کی نوکرشاہی کی بھرتی سرکاری یونیورسٹیوں سے ہی ہواکرتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کم خوش قسمت طبقے کے با صلاحیت افراد کو متمول طبقے کے افراد کی طرح کے مواقع میسر آجاتے تھے۔
سرمایہ داری کی یلغار کے نتیجے میں طبقاتی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں پرانا نظام تعلیم زمین بوس ہو گیا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ریاست پرانے طرز پر ہی چل رہی ہے۔ یعنی معاشرہ آگے بڑھ چکا ہے لیکن ریاست طرز کہنہ میں منجمد ہو گئی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ریاستی ادارے یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے چلے گئے ہیں۔ اس خلا کو نجی شعبے نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ طبقاتی سماج میں ہر طبقہ اپنے مفادات کا ہی تحفظ کرتا ہے اس لئے پاکستان میں نجی شعبے میں تعلیم کی فراہمی طبقاتی بنیادوں پر استوار ہوئی ہے۔ ریاستی اداروں کی ناکامی کے بعد امیر طبقات نے اپنی ضرورتوں کے پیش نظر اپنے لئے علیحدہ تعلیمی اور صحت کے ادارے قائم کر لئے ہیں۔ یہ رجحان نچلی سطح تک پہنچ چکا ہے یعنی گاؤں اور قصبات میں بھی نجی تعلیم طبقاتی بنیادوں پر فراہم کی جا رہی ہے۔ ایک طرف ریاست کے قائم کردہ سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جن میں اب صرف نچلے طبقے کے افراد تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو دوسری طرف نجی ادارے ہیں جن میں بہتر آمدنی والے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیارتعلیم ناقص ہو چکا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنے آپ کو جدید بنیادوں پر استوار کرکے آج کے معاشرے کے لئے تعلیمی حل پیش کرے۔
دنیا کے ترقی یافتہ سرمایہ دار معاشروں میں اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہر فرد کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ دنیا میں امریکہ سرمایہ داری نظام میں انتہائی غیر ہموار معاشرہ ہے جس میں ہر شعبے میں نجی سرمایہ کار ی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں یورپ اور جاپان میں تعلیم اور صحت کی سہو لتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مغربی یورپ کے ممالک میں فلاحی ریاستیں قائم ہیں جن میں عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن امریکہ جیسے غیر منصفانہ نظام میں بھی ہائی ا سکول تک مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ امریکہ میں یہ فرض مقامی حکومتیں (بلدیات) فراہم کرتی ہیںجس کے لئے ریل اسٹیٹ پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ امیر طبقات بہتر رہائشی علاقوں میں رہتے ہیں چنانچہ ان کو ٹیکس بھی زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طریق کار سے غریب ترین افراد تک بھی تعلیمی سہولتوں کی فراہمی ممکن ہے۔
پاکستان کو اگر سرمایہ داری نظام ہی اپنانا ہے تو اسے ترقی یافتہ سرمایہ دار معاشروںکی ساخت کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا۔ تعلیم کے شعبے میں ریاست کو پیش قدمی کرتے ہوئے معیاری تعلیم کو یکساں بنیادوں پر فراہم کرنا ہوگا۔ غالب امکان ہے کہ فی الفور یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتایعنی ریاست نجی تعلیمی اداروں کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکتی۔ اس لئے ان حالات میں ریاست کو کوشش کرنا چاہئے کہ تمام افراد کو فراہم کی جانے والی تعلیم کا معیار یکساں ہو۔ اس کے لئے نئے بنیادی قوانین و ضوابط بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تعلیمی نظام انارکی کا شکار ہے جس کے خاتمے کیلئے ریاست کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ریاست کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ تعلیم کی فراہمی منافع بخش کاروبار ہے یا خدمت ۔ امریکہ جیسے سرمایہ دار ملکوں میں اعلی تعلیم کا بہت بڑا حصہ نجی شعبے کی تحویل میں ہے لیکن ریاستی قوانین کے تحت یہ شعبہ غیر منافع بخش بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ ان اداروں سے ذاتی منفعت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی اس ماڈل پر عمل کرنا ضروری ہے یعنی نجی شعبے میں قائم کئے جانے والے ادارے ذاتی منفعت کی بجائے معاشرتی خدمات فراہم کریں۔