تحریر: شہزاد حسین بھٹی
لفظ Education یونانی زبان کے لفظ Educatum سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی ہیں پڑھانا یا سیکھانا۔ تعلیم سے مراد وہ تمام طریقہ ہائے تعلیم ہیں جن کے ذریعے اقتدار، عقائد، عادات، ہر طرح کا علم ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ ان طریقوں میں داستان گوئی، بحث و مباحثہ، تعلیم و تر بیت ، روایتی و غیر روایتی طریقہ ء تعلیم شامل ہیں۔ تعلیم کسی بھی قوم کا اثاثہ ہے۔ جو قوم تعلیم کے معیار کو بہتر سے بہترین بناتی ہے وہ کامیاب رہتی ہے۔ تعلیم ہی کسی قوم کو ٹیکنالوجی، دفاع، صحت ، صنعت و حرفت ، زراعت کے میدان میں کامیابی کی ضامن ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جس کے بل بوتے پرایک قوم کو دوسر ی پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ نیلسن منڈیلا نے کیا خوب کہا “تعلیم دنیا کو بدلنے کے لیے مضبوط ترین ہتھیار ہے۔
علم کی دولت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ۔علم کی دولت کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والی قوموں کا سر ہمیشہ بلند رہتا ہے ، جو قومیں علم کے میدان میں آگے نکل گئی وہی کامیاب رہیں۔ علم کی اس دولت کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کے لیے مختلف اداروں کا قیام عمل میں لایا جا تا ہے ۔تقریبا پورے ملک میں پھیلے گورنمنٹ سکول اور پرائیویٹ سکول یہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔حکومت کے ساتھ ساتھ این جی اوز اور امیر لوگوں نے بھی تعلیم کو عام کرنے کے لیے پرائیویٹ سکولوں کا اجراء کیا ہے۔علم حاصل کرنے کے لیے امیر غریب سبھی اپنے بچوں کو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہو ئی درسگاہوں میں بھیجتے ہیں۔
امیر اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے سکول میں داخل کرواتے ہیں جبکہ غریب کی دسترس میں صرف گورنمنٹ سکول ہی ہیں ۔ ان سکولوں میں ہر جماعت کی بھاری بھرکم فیس رکھی جاتی ہے اور یہ پرائیویٹ سکول صرف امراء کی دسترس میں ہیں ۔پرائیویٹ سکولوں میں سے چند ایک سکول بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں اور ان کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں جبکہ چند ایک بالکل چھوٹے پیمانے کام کر رہے ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ تقریبا ہر گلی، محلے میں یہ سکول چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی کھلے نظر آئیں گے ۔پرائیویٹ سکولوں میں طلبہ کی راہنمائی گورنمنٹ سکولوں کی نسبت کہیں بہتر کی جاتی ہے اور عام طور پر پرائیویٹ سکولوں کا معیار ِ تعلیم گورنمنٹ سکولوں کی نسبت بہتر خیال کیا جاتا ہے۔
گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا قصور صرف اور صرف غربت ہے جو ان کے بہترین مستقبل کی راہ میں حائل ہے ۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہیں اور اس مستقبل کی پرورش اور تعلیم کے سلسلے میں امیر غریب یا کسی بھی قسم کی تفریق نہیں کی جانی چاہیے ۔امیر اورغریب دونوں ہی بچے پاکستان کے بچے ہیں ، دونوں ہی کو آگے بڑھنے کے مناسب اور یکساں مواقع فراہم کیے جانے چاہیں ۔ تعلیم کا شعبہ پیغمبری شعبہ ہے دنیا میں خدا کا حکم نافذ کرنے جتنے بھی پیغمبر آئے انھوں نے تبلیغ کی ، قوموں کی تربیت کی ۔ایسے پیغمبری شعبہ میں کرپشن اور بدعنوانی کا ہونا ہماری قوم کی بدنصیبی کی علا مت ہے۔
تعلیم جیسے شعبے میں کرپشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قوم کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا جائے کیونکہ تعلیم کے شعبہ پر ملک و قوم کے مستقبل کا دارومدار ہے اس شعبہ کو بالخصوص کرپشن سے پاک کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ واحد شعبہ ہے جس میں کرپشن کا ہونا حال تک محدود نہیں رہتا بلکہ آج کی کرپشن مستقبل پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔ اور ایک نسل کی کرپشن کانقصان دوسری نسل اٹھاتی ہے ۔ اس شعبے میں خصوصا ایگزامینیشن سیکشن میں ا یمان دار افسران کی تقرری اور کرپشن کرنے والوں کے لیے کڑی سزائیں اس شعبے کی کرپشن کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
تعلیم کے شعبے کی حالت ِ زار کو پہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پورے ملک میں موجود تعلیمی اداروں کا نصاب یکساں ہو ۔ نصاب ایسا ہونا چاہیے جو ہماری اقدار سے متصادم نہ ہو ۔نصاب بناننے کی ذمہ داری ایک ایسے ادارے(HEC یا UGC)کو دی جائے جو کہ مکمل طور پر سیاسی مداخلت سے مبرا ہو۔ چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت ہو اس ادارے پر دبائو نہ ڈال سکے ۔اس ادارے میں نصاب بنانے کے لیے ان قابل اساتذہ کو رکھا جائے جو اس ملک کی اقدار کو سمجھتے ہوں ، ایسی بصیرت رکھتے ہوں کہ نصاب کو حال کے ساتھ ساتھ مستقبل سے بھی مکمل طور پر ہم آہنگ بنا سکیں ۔ نصاب کے معاملے میں قوانین بنانے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ اگر کوئی ادارہ ہماری اقدار سے منافی یا متصادم کتب پڑھانے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف کاروائی کی جا سکے ۔ نصاب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تقرری ، اساتذہ کی بھرتی ، کتابوں کی ترسیل و تقسیم کو کرپشن سے پاک کیا جانا ضروری ہے۔
تحریر: شہزاد حسین بھٹی