تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
اللہ پاک نے انسانوں کی ہدائیت کے لئے ہر خطے اور قوم میں اپنے رسول اور نبی بھیجے تاکہ انسانوں کو راہِ ہدائیت کی راہنمائی سیکھائی جاسکے، اللہ تعالیٰ نے اپنے گنے چُنے برگزیدہ انبیاء کرام، رسولوں اور نبیوں کو اپنے فضل و کرم سے علم سیکھایا تاکہ بنی آدم و مائی حواکی اولاد کو شیطان کے وسوسوں اور چالوں سے بچایا جائے اور اللہ واحد و لاشریک کی واحدنیت کا درس دیا۔انسانیت کے درس میں انسانوں کے لئے آسانیاں ، انسانوں سے محبت اور انسانوں کے حقوق جیسے عوامل شامل ہوتے تھے، اسی تعلیم میں مدلل اور واضع ہدائیت شامل ہوتیں کہ عبادت اللہ واحدولاشریک کی اور خدمت انسانوں کی مگر افسوس ہردور کے انسان نے نہ اس امن کے پیغام کو سمجھا اور نہ ہی اس پر عمل کیا، ماسوائے گنتی کے کچھ لوگوں کے،وقت چلتا رہا ۔۔۔چلتا رہا۔۔۔۔ حتیٰ کہ وہ مبارک گھڑیاں آگئیں جنکا تذکرہ آسمانی و الہامی کتابوں زبور ، انجیل مقدس،اور پاک تورات میں محفوظ ہیں۔
ہاں جی یہ اُسی ہستی کا زکر ہے جو اللہ پاک کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کی خانہ کعبہ کو تعمیر کرتے وقت دعا تھی، جی ہم اُسی خاتم الانبیاء کا زکر کر رہے ہیں ۔آپ ۖ پر جو سب سے پہلے وحی نازل ہوئی ۔۔اقرا۔۔یعنی پڑھ اللہ پاک نے علم کو کتنا شرف بخشا ، اپنے محبوب ۖ پر حضرت جبرائیل امین کو جب غارِ حرا میں بھیجا تو پہلا لفظ ۔۔پڑھ تھا، اور اسی آیت مبارکہ کو اپنی الہامی کتاب میں محفوظ کر لیا،جس سے علم کی اہمیت کا اندازا کیا جا سکتا ہے قرآنِ کریم و فرقانِ حمید میں ایک جگہ علم کی فضیلت کا تذکرہ کچھ یوں ہوتا ہے علم والے اور بے علم والے ایسے ہی جیسے زندہ اور مردہ، اس سے ثابت ہوا علم ایک ایسا نور ہے جس سے فلاح، نفع، بھلائی،حقیقت پسندی اور حق و باطل میں تفریق کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت ، اللہ کی واحدنیت، اور رسول اللہۖ کی رسالت پر ایمان شامل ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ہم علم کو تعلیم نہیں شعور کہہ سکتے ہیں کیونکہ بہت سارے تعلیم یافتہ ایسے ہیں جنکو معاشرے میں پڑھے لکھے جاہل کہا جاتا ہیں، ایسے تعلیم یافتہ جاہل ہی رشوت ، سفارش ، قتل و غارت، چور، ڈاکیتیوں میں ملوث ہوتے ہیں، ایسے پڑھے لکھے ہی معاشرے کا ناسور ہیں۔پڑھے لکھے جاہل ہی ماں باپ کے گستاخ ہوتے ہیں، اکثر و پیشتر ایسے لوگ ہی وہ گھٹیاںکام کرتے ہیں جس سے چنگیز خان اور لاہکوں خان کی روح بھی کانپ جاتی ہیں۔ جبکہ ان کے مدِمقابل کچھ رسمی تعلیم سے عاری ہونے کے باوجود اخلاقی طور پر باشعور ہوتے ہیں،گھر گلی محلے اور قومی سطح پر بھی ان کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف ہوتا ہیں ، ایسے لوگ حقیقتاً علم والے ہوتے ہیں۔ تعلیم وہ ہی ہے جس میں مثبت تربیت کا عنصر ہو ورنہ تعلیم شیطانی عناصر کا آلہ کار بنا دیتی ہے، اچھی تربیت کے لئے لازمی ہے۔
اچھی درس گاہ، اچھا نصاب اور سب سے بڑھ کر اچھا استاد ! ایک سچا واقعہ ہے کہ ایک پرائمری سکول میں ایک استاد کو ہفتہ عشرہ کی چھٹیاں مل گئی تو ان کی جگہ دوسرے استاد کو کلاس دی گئی، اردو کا پیریڈ تھا نئے استاد نے کافی محنت کے بعد آخر میں اپنی تفصیلی تشریح بیان کرنے کے بعد کلاس مین موجو ایک لڑکے سے پوچھا کہ آج ہم نے کیا سیکھا ہے؟لڑکا جواب دینے کی بجائے خاموش کھڑا رہا مگر پوری کلاس کے قہقوں سے مہک اٹھی۔ استاد تو استاد ہی ہوتا ہے۔کافی غوروغوض کے بعد استاد سمجھ گیاکہ لڑکوں کی ہنسنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ لڑکا کلاس کا نالائق ترین طالب علم تھا، جس کی وجہ سے لڑکے کو احساس محرومی اور دل میں تعلیم سے نفرت پیدا ہو رہی تھی۔تفریح وقت استاد نے سب لڑکوں سے آنکھ بچا کر کلاس کے نالائق لڑکے کو اپنے پاس بلا کر ایک شعر لکھا اور کہا تم نے صرف یہ زبانی یاد کر کے آنا ہے اور کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہونا چاہیئے۔
دوسرے دن استاد نے اسی شعر کا ایک فقرہ لکھا اور کہا جس کو یہ شعر آتا ہے صرف وہی ہاتھ کھڑا کرے،کلاس میں سناٹا چھا گیا،سب ہکا بکا ہوگئے کلاس کے نالائق ترین لڑکے نے ہاتھ اوپر اٹھایا سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے استاد نے کہا بتاؤ اگلا فقرہ کیا ہے۔لڑکے نے پورا شعر سنا دیا، استاد نے سب بچوں کو کہا کہ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے تالیاں بجائی جائے،استاد نے دوسرے دن بھی اسی طرح کیا ، دو چار دنوں کے بعد لڑکے میں خود اعتمادی پیدا ہونا شروع ہو گئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو کر اول پوزیشن حاسل کرنے میں کامیاب ہو گیااور آج وہ پی ایچ ڈی ہے،صرف تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ ایک اچھا مقرر ایک اچھا لکھاری ایک اچھا بیٹا ، بھائی ، دوست ،خاوند ،اورایک اچھا باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا مسلمان ، شہری اور بہترین انسان ہیں۔
دنیا میں انسان کا پہلا استاد ایک ماں ہے، اس لئے ماں کا پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ بااخلاق اور باشعور ہونا لازمی ہے، دوسرا بچے کے استاد کے چناؤ میں تین خصوصیات لازمی ہونی چاہیئے اول سچا پکا مسلمان دوئم دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت کا حامل سوئم خوش اخلاق و کردار کا حامل ہم اولاد کے اچھے مستقبل اور آخرت میں اللہ اور اللہ کے پیارے نبی کریم ۖ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آنکھیں کھول کر تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہوگا ورنہ دنیا اور آخرت کی تباہی ہمارا مقدر بن جائے گئی۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا