تحریر: عارف محمود کسانہ
دور حاضر کا تعلیم یافتہ انسان پانچ ہزار سال کے علم اور تجربہ کی بنیاد پر یہ جانتا ہے کہ موجودہ کائنات ۱۵ ارب سال پہلے Hydrogen کے ایک بڑے گولے Nebula کے طور پر خلا میں موجود تھی۔ جب یہ گولہ پھٹا تو وہ بڑا دھماکہ Big Bangہوا جس صدائے باز گشت آج بھی فضا میں گونج رہی ہے۔ ہمارے سامنے کائنات کی موجودہ صورت اسی عظیم دھماکے کی مرہون منت ہے۔ یہ سب تو انسان جان گیا ہے لیکن یہ نہیں جان سکا کہ یہ عظیم دھماکے سے پھٹنے والا Nebula کب اور کیسے موجود میں آیا۔160سائنس دان کائنات کی تخلیق کے تین نظریات ، عظیم دھماکے کا نظریہ Theory of Big Bang، مستقل حالت کا نظریہ Theory of Steady State، اور ارتعاشی نظریہ Theory of Oscillation۔ سائنس دانوں کی اکثریت بگ بینگ کے نظریہ کی حامل ہے۔
سائنس دان جس ابتدائی گیس کے گولے کی بات کرتے ہیں اس بارے قرآن حکیم کی سورہ حم السجدہ میں ہے کہ اللہ آسمان کی طرف متوجہ ہوتو وہ سب دھواں تھا۔ تخلیق کے ایک اہم مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے سورہ الانبیاء میں فرمایا کہ اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔ سورہ الذاریات میں تخلیق کائنات کے بارے میں فرمایا اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔سائنس دان کائنات کے اختتام پذیر ہونے کے بھی قائل ہیں اور دو نظریات بگ کرنچ اور بلیک ہول پیش کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو قرآن حکیم نے متعدد بار بہت ہی مثالوں سے واضع کیا ہے کہ یہ کائنات ختم ہوجائے اور پھر زندگی کا ظہور ہوگا جسے آخرت کہا ہے۔ کائنات کی یہ تعمیراور اس کی کارکردگی خُنَس و کُنَس سے قائم ہے جب سورج اور سیاروں کی یہ طاقت سلب ہوگی تو ایک محشر برپا ہوگی اور اِسی محشر کی کوکھ سے ایک نئی زندگی برآمد ہوجائے گی۔
کائنات کی ابتدائی تخلیقی مراحل میں وہ گیس کا گولہ جس الساعہ کا نتیجہ تھا اس بارے میں کتاب عظیم نے سورہ التکویر میں وہ منظر پیش کیا ہے۔ زیادہ ترمترجمین نے سورہ التکویر کو زمانہ مستقبل پر معمول کیاہے لیکن کچھ اہل علم نے اسے زمانہ ماضی بھی قرار دیا ہے۔علامہ اختر کاشمیری اپنی کتاب حدیث عجم میں اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ماضی کا یہ محشر ایک کائنات میں برپا ہوا ، جس میں زندگی تھی ۔ قرآن مجید نے لفظ اذا کے ذریعے اس کی خبر دی ہے۔ اس محشر کے نتیجے میں جزا پانے والے جزا پاگئے اور سزا کو پہنچنے والے کو سزا کو پہنچے تو اس زندگی کا دفتر لپیٹ دیا گیا۔ بگ بینگ کے بعد موجودہ کائنات وجود میں آئی۔ یہ حیات ختم ہوگی تو نئی حیات وجود میں آجائے گی۔
سائنس دان یہ معلوم کرنے کی جستجو کرتے ہیں کہ کائنات کیسے وجود میں آئی لیکن یہ نہیں معلوم کرسکتے کہ کیوں وجود میں آئی۔ اس کیوں کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس کاجواب خالق کائنات خود دیا ہے۔ قرآن حکیم میں پندرہ مقامات پر ہے کہ اللہ نے کائنات کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ قرآن حکیم نے مزید کہا کہ سلسلہ کائنات اس خوبی سے چل رہا ہے اس لیے تمہارا رب حق ہے۔ حق قرآن حکیم کی جامع اصطلاح ہے جس بنیادی معنی کسی چیز کا اس طرح موجود اور واقع ہونا (Concrete Form) کہ اس میں کوئی شک ہی رہے۔ کوئی ٹھوس واقعہ یا چیز جو حقیقت بن کر سامنے آجائے اور وہ محض نظری بتا نہ ہو بلکہ یقینی چیز ہو۔ وہ چیزجو وہ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو اور قوانین فطرت کے مطابق ہو۔ خود خدا کی ذات حق مطلق ہے اور اُس نے اس کائنات کو حق پر پیدا کیا ہے۔ یہ محض افسانہ، کھیل تماشا یا اتفاق نہیں بلکہ ایک مقصد کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جو تعمیری نتائج کے لیے بنائی گئی اور پھر انبیاء اکرام کے وساطت سے انسانوں کی رہنمائی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ خدا خود حق ہے۔اُس کے بھیجے ہوئے رسول حق ہیں ، اُن کی لائی ہوئی وحی حق ہے، قرآن حق ہے، اُس کا دین حق ہے۔ دنیا میں حق( تعمیری ) اور باطل (تخریبی قوتوں ) کے درمیان مقابلہ جاری رہتا ہے اور آخر کار حق ہی غالب آتا ہے اور یہ اللہ کے بندوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو مشرقوں اور مغربوں کا رب کہا ہے۔ ہماری زمین پر تو ایک ہی مشرق اور مغرب ہی ممکن ہے تو مطلب یہ ہوا کہ لامحدود کائنات میں کئی مشرق اور مغرب ہیں۔ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کی وسعت جس کا اندازہ سائنس دان ابھی تک کرسکے ہیں اس کے مطابق ہماری زمین جس نظام شمسی میں ہے وہ یعنی ملکی وے گلیکسی یعنی ہماری کہکشاں ہے۔زمین سے مشابہ آٹھ سیارے دریافت ہوچکے ہیں جن پر پانی اور حیات کا امکان ہے۔ اگر ہم روشنی کی رفتار یعنی ۳ لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ سے سفر کریں تو اپنے نظام شمسی کے قریب ترین سیارے تک پہنچنے میں چار سال لگیں گے۔ ہماری کہکشاں میں زمین کے حجم کے برابردو سو ارب یا دو سو بلین سیارے ہیں۔صرف ہماری کہکشاں میں کئی ارب نظام شمسی موجود ہیں اورجس طرح کی ہماری کہکشاں ہے ایسی پانچ ارب کہکشائیں (5 بلین) موجود ہیں۔ اب بات سمجھ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو کیوں مشرقوں اور مغربوں کا رب کہا ہے اور اسی طرح حضورﷺ بھی رحمت الاعالمین یعنی کہکشاوں میں بکھرے ہوئے تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔
اس وسیع کائنات میں کہیں زندگی ارتقائی مراحل Evolutionطے کررہی ہے اور کہیں بہت آگے جاچکی ہے اور کہیں Big Crunch عظیم تباہی آچکی ہے اور وہاں والے اپنی جزا و سزا کی منزل کو پہنچ چکے ہیں اور باقی ہماری طرح منتظر ہیں۔ یہ نظام کائنات اسی طرح چلتا رہے گا بقا صرف اسی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔سورہ رحمٰن میں حقیقت واضع کردی کہ ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے اوررب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ انعام و اکرام ہے۔
تحریر: عارف محمود کسانہ