تحریر: رقیہ غزل
حسبِ موقع چند ہفتے قبل ٹائمزآف ہائر ایجوکیشن نے دنیا کی سو بہترین جامعات کی فہرست جاری کی ہے اس عالمی رینکنگ کے مطابق امریکہ ٹاپ تھری جامعات کے ساتھ سرفہرست ہے اور اسکی” ہارورڈ ”یونیورسٹی دنیا کی بہترین جامعہ قرار پائی ہے جبکہ برطانیہ اپنی دس بہترین جامعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس رینکنگ میں گزشتہ سال کی طرح اس باربھی پاکستان اور بھارت کی کوئی یونیورسٹی شامل نہ ہے گذشتہ سال اس رینکنگ میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی برطانیہ کی کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیاں پانچویں اور چوتھے نمبر پر چلی گئیں ہیں جبکہ اس درجہ بندی سے دو عدد خارج بھی ہوگئی ہیں اس طرح سو بہترین جامعات میں ایشیائی جامعات کی تعداد 17ہوگئی ہے تاہم کئی دیگر ممالک کے تعلیمی ادارے گذشتہ سال کی درجہ بندی کے مقابلے میں تنزلی کا شکار ہوئے ہیں یعنی مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو امریکی یونیورسٹیوں کے علاوہ اکثر اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں ٹائمز آف ہائر ایجوکیشن کے رینکنگ ایڈیٹر فل بیٹی کہتے ہیں کہ اس سال برطانیہ نے بہت کچھ کھو دیا ہے برطانیہ کی تعلیمی کارکردگی میں تنزلی آئی ہے جبکہ ایشیا اس فہرست میں اوپر آگیا ہے اس براعظم کی نمائندگی گذشتہ سال کے مقابلے میں د س سے بڑھ کر 17 ہوگئی ہے ۔
عالمی جامعات رینکنگ میں مسلم ممالک کی ایک بھی یونیورسٹی کا شامل نہ ہونا جہاں فکر انگیز ہے وہاں وزارت ہائے تعلیم پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے کہ 250 جامعات میں ایک بھی مسلم یونیورسٹی شامل نہیں ہے اور اس کے بعد اس رینکنگ کی800 بہترین جامعات میں سے چیدہ چیدہ مسلم جامعات نظر آتی ہیںاور ان کی تعداد بھی صرف 43 ہے اس تعلیمی گراوٹ کی وجہ کیا ہے یہ الگ بحث ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں کمی کیاہے جو اسے دیگردنیا میں تسلیم نہیں کیا جاتا یا ایسا کونسا پیمانہ ہے جس پر مسلم جامعات پورا نہیں اترتیں یہ اعدادو شمارخاص طور پرپاکستانی تعلیمی محکموں اور وزراء کے دفاتر میں نمایاں طور پر چسپاں کرنے چاہیئے تاکہ حکمرانوں کو علم ہو کہ کہ یہ ہیں تمہارے دعوے اور حقیقت ۔۔! آج اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیمی شعبے میں اہم عہدوں پر جن لوگوں کو نوکریاں دی گئی ہیں وہ سفارش اور اقربا پروری کی بنیاد پر دی گئی ہیںبریں وجہ یہ شعبہ برباد ہوگیا ہے اور مسلسل تنزلی کا شکار ہے یہاں میرٹ اس بات کا نام ہے ۔
جسے منتخب کرنا ہے انٹرویو میں کر لوجبکہ نمایاں قابلیت اور اہلیت رکھنے والے خوار ہوتے رہیں
امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی عالمی جامعات رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہے اس کی کامیابی کی وجہ کیا ہے اس کے لیے ایک تحقیق درکار ہوگی گذشتہ سال میں نے ٹائمز آف ہائر ایجوکیشن کے دائرہ کار کا احاطہ بھی کیا تھا کہ اس مد میں ریسرچ ورک کو اولیت حاصل ہے اور ہمارے ہاں نہ ایسے اساتذہ ہیں اور نہ ایسا نظام ہے کہ بچوں کو سوچنے پر مجبور کیا جا سکے مختلف سروے رپورٹ سے بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے اگر آپ سکول کے بچوں کو مضمون پڑھنے یا لکھنے کو دیں توان میں سے بالترتیب 94 سے 80فیصد بچے ایسا نہیں کر سکیں گے حتی کہ ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسسز اور ڈیٹا ورک عام طور پر متعلقہ شعبوں کے اساتذہ ہی قیمتاً تیار کر کے دیتے ہیں اور بہت کم بچے ہیں جو خود محنت کرتے ہیں جن سے اساتذہ تعاون بھی نہیں کرتے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اساتذہ کس طرح بچوں کی ذہنی تربیت کر رہے ہیں اس میں ”رٹا سسٹم ” نے دماغی نشو نما کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور یہ کسر کالج لیول تک نوٹس دیکر پوری کر دی جاتی ہے یعنی طلبہ کو سوچنے اور غوروفکر کرنے کا شعور دینا تو درکنار اگر کوئی اپنے ذہن یا مہارت سے سوالات کے جوابات لکھ دے تو اسے خوصلہ افزائی کے نمبرز بھی نہیں دئیے جاتے بلکہ اکثر اساتذہ ایسا غیر منصفانہ رویہ اختیار کرتے ہیں ۔
فیل کرنے میں بھی تامل سے کام نہیں لیتے کہ جو جواب میں نے لکھوایا تھا وہ کیوں نہیں لکھا یعنی اس شعبے میں بھی اکثرنا اہل اساتذہ کی بھرتیاں کی جاتی ہیں اور ان کی تربیت کا بھی کوئی خاص طریقہ کار وضع نہیں کیا جاتا اس پر گذشتہ کئی سالوں سے نصاب میں تبدیلی کی بھی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا تھا تاکہ تعلیمی اہلیت کوفروغ ملے مگر مقام افسوس یہ ہے کہ مغرب اور حکمرانوں کی آشیرباد پر نام نہاد تعلیمی ماہرین نے تعصب اور لبرل ازم کے نظریات کی آبیاری کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو اضافی تصور کرتے ہوئے نکال دیا اور اس کی جگہ ایسی باتوں اور ابواب کو شامل کیا ہے جو کسی طور بھی مناسب نہیں ہیںتو ان نظریات ،انتظامات ،نصابوں اور ایسے ذہنوںسے کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عالمی افق پر چاند اور ستارے بن کر چمکیں گے
اگر عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو تعلیمی بدحالی کی بہت سی وجوہات ہیں مگر ان میں نمایاں معاشی بدحالی اور حد سے گزرتا ہوا میڈیا ہے کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں کوئی چیز جب تک اپنی حد میں ہوتی ہے تب تک اچھی لگتی ہے ۔
جب وہ اپنی حد سے نکلتی ہے تو وہ شر کی صورت اختیار کر لیتی ہے اوراس کا خمیازہ قوموں کو تباہی و بربادی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے چند صدیوں سے ہمارے ساتھ بھی یہی ہورہاہے کہ ہم اپنی حدوں سے تجاوز کررہے ہیں نغمہ و سرودبچوں کے رگ و پے میں بس چکا ہے ہمارے ہاں بے حیائی اور ذومعنی گفتگو پہلے ٹکٹ لیکر دیکھی جا تی تھی یا جگہیں مخصوص ہوتی تھیں مگر وہاں بھی شرفا ء منہ چھپا کر جاتے تھے آج وہ سب کچھ گھر گھر اور تمام جگہوں پر کبھی اینٹرٹینمینٹ اور کبھی ثقافت کے نام پر دکھایا جا رہا ہے نتیجتاً ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جس کے بارے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ گزر گیا اب وہ دور ساقی ! کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہاں مے خانہ ،ہر کوئی بادہ خوار ہوگا میری نظر سے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی گیارویں جماعت کی قواعد گزری جس میں دو جملے کچھ یوں تھے کہ گل اندام: کترینہ کیف ایک گل اندام حسینہ ہے ۔پرخمار: گل پانڑہ کی پر خمار آنکھیں قیامت ڈھاتی ہیں ۔۔
ایسی مثالوں سے جب تعلیم دی جائے گی تو لیلی مجنوں ہی پیدا ہونگے اسی اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ ہے کہ آج تعلیم جو کہ کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اس میں ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا ہمارا نظام تعلیم ماننے کو ہی تیار نہیں ہے اور صحت کا عالم یہ ہے کہ ہمیں معدے کا علاج کروانا ہو تو ہم بیرون ملک جاتے ہیں اوراپنے ملک میں آکسیجن ماسک بھی ہسپتالوں میں نہیں ہیںجبکہ بجلی چلی جائے تو ونٹی لیٹر بھی ڈیڈ ہوجاتا ہے چاہے زندگی دائو پر لگ جائے جبکہ دنیا میں کہیں بھی اگر دس فیصد بچے کسی بیماری یا معاشی مسئلے کا شکار ہو جائیں تو ہنگامی انتظامات کئے جاتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تناسب اڑتالیس فیصد ہے جہاں پیدائش کے فوراً بعد یا پانچ سال کی عمر تک بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر ،مناسب طبی امداد نہ ملنے پر اور غذائی قلت کیوجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں مزید ستم یہ ہے کہ ہسپتال بھی نا گفتہ بے حالات پیش کر رہے ہیں جہاں بنیادی سہولیات کے نہ ہونے سے بھی شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ جس دن خادم اعلیٰ نے اورنج ٹرین کا افتتاح کیا تھا اسی دن ہسپتال میں ونٹی لیٹر نہ ہونے کیوجہ سے ١٥ بچے زندگی ہار گئے تھے اور اب چند دن قبل ایک خاتون ونٹی لیٹر نہ ہونے کے سبب زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔
سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کیوجہ سے نوزائیدہ بچے مسلسل اغوا ہو رہے ہیں مگر اس سلسلے میں کوئی ہنگامی انتظامات نہیں کئے گئے ہیں اور نہ مستقبل قریب میں ایسا کوئی ایجنڈا پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق کم از کم ہسپتالوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ کوئی زندگی کی بازی نہ ہارے بیمار عوام، بیمار نظام، بیمار ذریعہ معاش کی موجودگی میں ہم کیسے دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیں گے آج ہم جن کی تقلید میں دیوانے ہو رہے ہیں وہ بھی دو سال قبل اس بے حیائی کی یلغار سے تنگ آکر مختلف قسم کے احتیاطی حربے آزما رہے ہیں برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے تمام گھروں اور انٹرنیٹ کیفے میں فحش ویب سائیٹس پر پابندی اور اس مقصد کے حصول کے لیے ”فیملی فرینڈفلٹرز” متعارف کروائے تھے اور سختی سے تنبیہ کی گئی تھی کہ صاف ستھرا انٹرنیٹ کنکشن فراہم کیا جائے جبکہ ہم نے ایسے مواد پر اب پابندی عائد کی ہے یہی حال تفریحی چینلز کا ہے ان میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اس کے اثرات بھی سامنے ہیںانقریب ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ اس تفریح سے ہم نے کچھ نہیں پایا بلکہ بہت کچھ گنوا دیا ہے مسئلہ وہی ہے کہ ہماری ترجیحات جب تک روحانی، اصلاحی اور فلاحی نہیں ہونگی ترقی و سلامتی کا کوئی خواب پورا نہ ہوگا اوریہ نوشتہ دیوار ہے کہ تعلیمی گراوٹ تنزلی کی پہلی سیڑھی اور تباہی کی طرف پہلا قدم ہے ۔
اگر ہم ماضی میں صرف پاکستانی حکومتوں کے اسباب اور واقعات کا جائزہ لیں تو یقینا جان جائیں گے کہ جب کبھی بھی حکمرانوں کی ذاتی اخلاقیات اور وقار گراوٹ یا عوامی بد اعتمادی کا شکار ہوا تو حکومتیں کوئی معیاری اور خاطر خواہ عومی خدمات سرانجام نہ دے سکیں اور بالآخر ان حکومتوں کے ایوانوں میں لرزے طاری ہوگئے اور حکومتیں گر گئیں ۔آج بھی ہر سطح پر بے یقینی کی فضا اور سینہ زوری کا راج ہے ،برسر اقتدار طبقہ منہ زوری اور شہ زوری دکھا دکھا کر اپنے وطیرے بدلنے سے گریزاں ہے اور اپوزیشن ہر جائز اور ناجائز طریقے سے انھیں گرانے میں مشغول ہے حالانکہ ہر کسی نے سیاسی مفادات کی لوٹ مار اور مکاری کو ایک ہنر جان رکھا ہے مگر کسی کو ملک و ملت اور عوام کی فلاح ،خیر خواہی اور خدمت کی طرف کوئی دھیان نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہمارے سیاستدانوں کو دوسروں کے لیے نفع بخش کام سر انجام دینے کی توفیق بخشے ویسے آج کے دور میں سیاست جتنی ذلیل و خوار مگر منفعت بخش روزگار ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی ،عوام دیکھ رہے ہیں اور جان کر کہہ رہے ہیں کہ سیاستدانوں !کہاں ہیں تمہارے دعوے اور یہ ہے حقیقت ۔
تحریر: رقیہ غزل